متفرق خبریں

جے بھیم، نسل پرستی اور کئی تھپڑ

نومبر 19, 2021 3 min

جے بھیم، نسل پرستی اور کئی تھپڑ

Reading Time: 3 minutes

معاذ بن محمود

کئی تھپڑ ہیں۔ کچھ اپنے چہرے پر، کچھ آپ کے چہرے پر، کچھ سماج کے چہرے پر، کچھ سرکار کے چہرے پر، اور باقی سارے سرکار کی سرکار کے چہرے بلکہ تھوبڑے پر۔

ٹی جے گناناول نے جے بھیم کی کہانی لکھی اور بطور فلم اسے پروڈیوس کیا۔ سوریا نے فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ دونوں نام یاد رکھیے گا، آگے کام آئیں گے۔ فلم آپ میں سے اکثر شاید دیکھ چکے ہوں، لہذا تفصیل کی بجائے خلاصہ بیان کرنا بہتر ہے۔

سال ۱۹۹۵، تامل ناڈو میں ارولا قبائل سے تعلق رکھنے والے تین مزدور سپیروں کو چوری کے الزام میں اٹھایا جاتا ہے اور بعد ازاں ان میں سے ایک کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ پولیس، سرکاری وکیل اور سرکار کے لیے یہ اوپن شٹ کیس ہے۔ ملزمان کی جانب سے چوری کا سونا سنار کو بیچا جانا سنار کی گواہی کے باعث ثابت ہے جس کے بعد دوران تفتیش ملزمان پولیس کی حراست سے فرار ہو کر کیرالہ کی سرحد کے نزدیک پہنتے ہیں۔ یہاں مرکزی ملزم حادثے کا شکار ہوتا ہے اور باقی دو ملزم فرار ہوجاتے ہیں۔

کسی ویڈیو، رپورٹر اور گواہ کے عدم میں یقیناً سانحہ ساہیوال بھی ایسا ہی ہوتا۔

یہاں سے وکیل جس کا نام چندرو ہے یہ مقدمہ چنائے ہائی کورٹ میں لے جاتا ہے اور سرکار، پراسیکیوٹر جنرل اور پولیس کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ پولیس، سرکار، سرکاری وکیل اور پراسیکیوٹر جنرل اس دوران کیا کیا ہتھکنڈے اپناتے ہیں یہ دیکھنے لائق ہے۔

تامل ناڈو کے ارولا قبائل جنہیں نیچ ذات سمجھا جاتا ہے، کے نیچ ہونے کی اصل وجہ ان کی سیاہ رنگت ہے۔ روئے زمین پر کوئی سیاہ فام قوم ایسی نہیں جسے سیاہ ہونے کی وجہ سے کمتر نہ سمجھا گیا ہو۔ پھر ارولا قبائل اس تعفن زدہ سوچ سے کیسے بچے رہ سکتے تھے؟ سیاہ تھے، غربت کے مارے تھے، شکل و صورت میں مروجہ معیار کی کسوٹی پر کہیں نیچے پائے جاتے تھے لہذا ملعون ٹھہرے۔

کئی تھپڑ۔۔۔

میرے چہرے پر کیونکہ ایک عرصے تک ہمیں یہ سبق پڑھایا گیا کہ ویسٹ انڈینز کو “کالی آندھی” کہنا باعث استہزا ہے۔ آپ کے چہرے پر کیونکہ آپ نسل پرستانہ یا ریسسٹ لطائف سن کر ان پر ہنستے رہے ہیں۔ معاشرے کے چہرے پر کیونکہ کم از کم ہمارا معاشرہ تو آج بھی رنگ نسل مذہب کو بنیاد بنا کر انسان کو ابتر یا برتر ثابت کر لیتا ہے۔ سرکار کے چہرے پر کیونکہ یہ سب کچھ سرکار کی موجودگی میں ہوتا ہے۔

اس مختصر تحریر کے آغاز میں آپ سے دو نام یاد رکھنے کی گزارش کی گئی تھی۔ ان دو ناموں میں ٹی جے گناناول اور سوریا کے نام شامل تھے۔ ٹی جے گناناول نے جے بھیم کو تحریر اور پروڈیوس کیا۔ سوریا نے فلم میں مرکزی ہیرو کا کردار ادا کیا۔ آئی ایم ڈی بی پر فلم کی ریٹنگ 9.6/10ہے۔ فلم مبینہ طور پر بھارتی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ارولا قبائل کو کمتر سمجھے جانے کے خلاف ہے حیرت کی بات البتہ یہ ہے کہ نہ تو اب تک ٹی جے گناناول کے خلاف غدار کا نعرہ اٹھا اور نہ سوریا کے خلاف۔

اللہ کا بڑا کرم ہے کہ مین سٹریم میڈیا کو طلاق دیے ایک عرصہ ہوا۔ وجہ اس کی مایوسی ہے کیونکہ مین سٹریم میڈیا کا ہر چینل کسی نہ کسی ایجنڈے یا مجبوری کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کی ایک وجہ یہاں اکثریت کا کسی کا کانا نہ ہونا تھی۔ مالک کا کرم ہے کہ اب پاپوش پرست حوالدار اور ان کے پالتو خاص و عام فیس بکیوں کی شکل میں اکثر کانے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان یا کے پی میں غلیل برداروں کی کاروائیوں پر سوال اٹھانے والے غدار کہلاتے ہیں۔

شاید ہم خاموش رہے تو غداری کی تعریف میں تحریف ہوجائے۔ شاید ہم خاموش رہے تو ظلم سانحہ ساہیوال سے شروع ہو کر حیات شہید کیس سے ہوتا ہوا میری اور آپ کی اولاد تک پہنچ جائے۔

سوال یہ ہے کہ جس دن ایسا ہوا اس دن آپ کس کو اور کتنے تھپڑ ماریں گے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے