کالم

اندھے قانون میں انصاف کا دیپ جلنے کو ہے

جنوری 10, 2022 3 min

اندھے قانون میں انصاف کا دیپ جلنے کو ہے

Reading Time: 3 minutes

انعم ملک . اسلام آباد

اسلام آباد میں قتل کی گئی سابق سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کیا.

چار صفحات پر مشتمل حکم نامے میں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نےپانچ وجوہات کی بنا پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ذہنی صحت کے جائزے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کی.
عدالت نے وجوہات کچھ یوں بیان کی ہیں:

1۔ ملزم اپنے والدین کے ساتھ ٹرائل کا سامنا کرتا رہا ہے اور اس دوران ظاہر جعفر کے والدین یا کسی عزیز نے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دائر نہیں کی۔
2۔ آٹھ دسمبر2021 کو بھی ملزم ظاہر جعفر کا طبی معائنہ ہوا اور اس میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔

3۔ میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست کے ساتھ ظاہر جعفر کا کوئی سابقہ میڈیکل ریکارڈ نہیں لگایا گیا جو ظاہر کرتا ہو کہ انھیں اس نوعیت کا کوئی مسئلہ ہے۔

4۔ نور مقدمہ کا ٹرائل اب اختتام پذیر ہونے والا ہے اس لیے یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

5۔ ملزم کو نور مقدم قتل کے مقدمے میں جب جائے حادثہ سے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کا میڈیکل چیک اپ کروایا گیا تھا، جس میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ تھا۔

یاد رہے کہ ملزم اس وقوعہ سے قبل ایک نجی سکول میں بچوں کی کونسلنگ بھی کرتا رہا ہے اس کے علاوہ وہ اپنے والد اور اس مقدمے کے شریک ملزم ذاکر جعفر کی کمپنی میں ایک عہدے پر بھی فائز رہا ہے۔

عدالت اس مقدمے کو جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ اگلی سماعت پر نور مقدم کے والد اور مقدمے کے مدعی شوکت مقدم کا بیان قلمبند کیا جائے گا اور اسی روز ان پر ملزمان کے وکلا جرح بھی کریں گے۔

پاکستا ن جیسے ملکوں میں ایسے فیصلے بہت کم ہوتے ہیں جہاں مکمل قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے.

ایسے ہزاروں واقعات ہیں جن میں غریب سائل ساری زندگی اسی اذیت اور تکلیف میں گزار دیتے ہیں کہ ملزم معاشرے میں دندناتے پھرتےہیں۔
نورمقدم قتل کیس میں دونوں طرف پیسے والے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز امیر طبقے کے لوگ ہیں جو اپنے لیے انصاف کے حصول میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

خیر ایسے اندوہناک اور انسانیت کے خلاف واقعات میں فیصلے امیر اور غریب طبقے کو دیکھنے سے بالاتر ہونے چاہئیں۔

انصاف پسند معاشرے میں‌قانون کی بالادستی ہی ریاست کی مضبوطی کی علامت ہوتی ہے. معاشرے کے ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک بہتر سماج کی تشکیل کے لیے مجرمانہ ذہنیت کی بیخ کنی کرے.
پاکستان میں جہاں لوگ اپنی نوکری بچانے کے لیے قانون کی پاسداری نہیں کرتے ان کو قانون کے ذریعے ہی سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کے لیے دوسروں کو سبق ملے.

نور مقدم کے کیس میں مقتولہ کی زندگی کی بھیک مانتے سی سی ٹی وی فوٹیج اور ملزم کے گھر کے مالی، خانسامہ اور گارڈز کی سنگ دلی اور اپنے مالک کی نمک حلالی پر سزا بنتی ہے.
ایسے افراد کو ظلم، جبر کو روکنے سے قاصر ہوں ان بزدلوں کی نوکری تو ختم ہی ہو جاتی ہے مگر قتل میں شریک ملزم بھی بن جاتے ہیں.

نور مقدم قتل کیس میں سول سوسائٹی سامنے آئی، احتجاج ہوا جو کسی بھی معاشرے کے زندہ ہونے کی علامت ہے. یہ علامت اور روایت ہر ایسے کیس میں برقرار رہنی چاہیے جہاں مارے جانے والے معاشرے کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، جو قانونی طریقے سے مقدمہ لڑنے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں تاکہ ان کو اندھیرے میں امید کی روشنی دکھائی دے.

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
ہر شخص سر پے کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے