اہم خبریں متفرق خبریں

جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کون؟ عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل لاجواب

جنوری 18, 2022 5 min

جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کون؟ عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل لاجواب

Reading Time: 5 minutes

عمر برنی ، صحافی . اسلام آباد

اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت سے جبری گمشدگی کے مقدمات میں مؤقف پیش کرنے کے لیے اٹارنی جنرل کو حتمی دلائل دینے کی ہدایت کی ہے.

منگل کو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کی گمشدگی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے۔ اکثر لوگوں نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا۔ کچھ لوگ حراستی مراکز میں ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسا بھی ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سر چوراہوں پر لٹکائے جاتے تھے۔ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر بھی لوگ حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے۔

ایک درخواست گزار نے بتایا کہ میرے دونوں بیٹے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس تھے جنہیں 2016 میں اٹھایا گیا۔ ایک ایل ایل بی اور دوسرا ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہا تھا۔ واقعہ کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پر درج ہوئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔ میں نے ایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے۔ دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے ان کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟ سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ایس ای سی پی کے ملازم کو بھی اٹھایا گیا تھا۔ ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں؟ ایک بیچارے نے کہا تھا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بتا سکتے ہیں۔

کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ ایک لاپتہ شہری کے کیس میں ملوث ایک انٹیلی جنس افسر کی تصویر دکھائی تو لاپتہ شہری واپس آ گیا۔ شہری نے واپس آ کر بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلا گیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، کون لاپتہ کر رہا ہے؟ حکومت اور وفاقی کابینہ جواب دہ ہے۔

کرنل انعام نے موقف اپنایا کہ لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آئی جی اسلام آباد سے اس سے متعلق رپورٹ منگوا لیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں۔ کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس کورٹ کو حل بتائیں۔ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں۔ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ یہ ایسی بات ہے کہ ریاست کو ہل جانا چاہئے۔ ایسے واقعات سے نان سٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے۔ یہ کورٹ کسی کو سمن کر کے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتا؟ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہو سکتے ہیں۔ ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پر شک کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے۔ کمیشن نے جے آئی ٹی بنائی اور رپورٹ دے کر کہا کہ ان کی جان تو چھوٹ گئی۔ وہ بچہ یقینا ناردرن ایریا تو نہیں گیا تھا، کم از کم معاملہ انوسٹی گیٹ ہو جاتا تو لوگوں کو اعتماد ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔ اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہو جائے تو یہ اچھا میسج جائے گا۔ جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر کسی کو نشاندہی ہو جائے اور چیف ایگزیکٹو نہ ایکشن لیں تو وہ جوابدہ ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے اور اب مفرور ہیں۔ میرے لیے کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہیں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائیں، تاہم میں ایسا نہیں کہوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے ان تینوں کیسز کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیاجائے گا۔

ایک درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن کی وڈیو موجود ہے اس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔ جبری گمشدگیوں کے ہر کیس میں شہری کو اٹھانے کی فوٹیج نہیں ہوتی، میرے بیٹوں کے کیس میں وڈیو نہیں، عینی شاہدین موجود ہیں جنہوں نے بیانات ریکارڈ کرائے۔ کیا کوئی ایس ایچ او اپنے آئی جی کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے؟ آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟

مسنگ پرسنز کے وکیل نے موقف اپنایا کہ حراستی مرکز کا دورہ کرایا جائے تو کافی لاپتہ شہری بازیاب ہو سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی بات نہیں، حراستی مرکز میں موجود تمام افراد کی شناخت اور لسٹ موجود ہے۔ حراستی مرکز میں موجود لوگوں کی ان کی فیملیز سے ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہئے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اٹٓارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ یہ عدالت، وکیل، صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کر سکتا۔ عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر موثر اقدامات کا حکم دے دیا۔

عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل تین ہفتوں میں مطمئن کریں کہ کیا اقدامات کیے گئے۔

عدالت نے جبری گمشدگیوں کے کیس میں 14 فروری کو حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے