مغرب برین ڈرین نہیں کرتا، کریم جمع کرتا ہے
Reading Time: 2 minutesولدیت اور نسل پر تفاخر اس زمانے کی روایات میں سے ایک ہے جس زمانے میں انسان قبائل میں تقسیم تھا اور ہر قبیلہ اپنی چھوٹی سی ریاست چلا رہا ہوتا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ انسانیت ترقی پاتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ انسانوں کے ایک حصے کو اشرف المخلوقات ہونے کا اصل مطلب سمجھ آنے لگا جبکہ دوسرا حصہ اشرف المخلوقات کا تصور لے کر خود لذتی تک محدود رہ گیا۔
چند مثالیں دے کر لب لباب پر آتا ہوں۔
پاکستان میں ہر جگہ ولدیت درج کرنا لازم ہے۔ ہر جگہ مطلب ہر جگہ۔ مسلک اور قوم یا ذات بھی پوچھے جاتے ہیں۔ غالبا فرد کی پہچان یا تشخص کا حصہ ہے۔ امارات میں ولدیت کو لے کر یہی معاملہ رہا۔ وہاں تو ابا کے نام کو میرے نام کا حصہ بنا کر میرا نام معاذ بن محمود محمود الحسن صدیقی کر دیتے۔
اور میرے لیے فارم میں نام بھرنا اوکھا ہوجاتا۔
یہاں میلبرن میں کرائے نامے سے لے کر ڈرائیونگ لائسنس تک، کہیں ولدیت کا خانہ نہیں ملا۔ کہیں قوم/ذات کا خانہ نہ ملا۔ ہاں ایبوریجنل اور ٹوریز کے مقامی کا پوچھا جاتا ہے وہ بھی ان کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش میں، ورنہ ولدیت نامی شے شاذ ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
بات ہو رہی تھی انسانوں کے دو حصوں کی۔ ایک حصے نے رنگ نسل مذہب جنسی ترجیحات جیسی غیر ضروری خصوصیات کو اچھے یا قابل انسان کی تعریف سے منہا کر دیا اور ریاست کے دروازے قابلیت کی بنیاد پر کھول دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی کریم جمع ہو رہی ہے دنیا کے چند حصوں میں۔
دوسری جانب ہم نے رنگ مذہب نسل کو بنیاد بنا کر طبیعت سے بیوقوف اپنے سروں پر بٹھانے شروع کر دیے۔ ہمارے ووٹ نسل کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں۔ ہمارے سروں پر مسلط حکمران مذہب کے نام پر کھیلتے ہیں ہماری حقارت رنگ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ لہذا بدنسل، بدمذہب اور بدرنگ انسان پھر عقل کے معیار پر جتنا بھی قابل کیوں نہ ہو، ہم اسے آگے بڑھنے کی تحریک نہیں دیتے۔
مغرب برین ڈرین نہیں کرتا، مغرب کریم جمع کرتا ہے۔ برین ڈرین ہم خود کرتے ہیں۔
کیونکہ ہم آج تک حلالی خرامی سے باہر ہی نہیں نکلے۔ سادات کو لے کر جو سوال اٹھا لے وہ خرامی۔۔ صحابہ کی سیاست پر جو تنقید کرے وہ خرامی۔
اور روتے ہیں ہم یخود و نصاری کی سازشوں پر۔