کالم

یوکرین پر روسی حملے میں ہمارا تیل نکلے گا

فروری 25, 2022 5 min

یوکرین پر روسی حملے میں ہمارا تیل نکلے گا

Reading Time: 5 minutes

روس کا یوکرائن پر حملہ ننگی جارحیت ہے۔ بغیر کسی اشتعال انگیزی یا ٹھوس جواز کے ایک پرامن اور کمزور ملک پر طاقت کے بل بوتے پہ چڑھ دوڑنے کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ایسی ہر امریکی جارحیت بھی قابل مذمت تھی اور روس کے اس اقدام کی بھی ویسی ہی مذمت کی جانی چاہیے۔

روس نے یوکرائن پر حملے کے جو جواز گھڑے ہیں وہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے بھیڑیے نے میمنے پر حملہ آور ہونے کیلئے تراشے تھے۔ ایسے ہی بےہودہ جواز بھارت کو کشمیر، افغانستان کو قبائلی علاقوں اور ایران کو بلوچستان میں میسر ہیں۔ اس لئے پاکستانیوں کو خصوصاََ روس کی حمایت کرتے شرم آنی چاہئے۔ گریٹر رشیا اور گریٹر انڈیا کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے۔

جہاں تک وزیراعظم کے دورہ روس کا تعلق ہے تو یہ محض ہماری بدقسمتی اور پیوٹن کی کمینگی ہے کہ اس نے حملے کیلئے اس دن کا انتخاب کیا۔ اس پر البتہ دو رائے ہو سکتی ہیں کہ یہ دورہ ملتوی کیا جانا چاہئے تھا یا نہیں۔

جب 2016 میں پیوٹن نے کئی ماہ پہلے سے طے شدہ پاکستان کا دورہ منسوخ کیا تھا، اس کے چھ سال بعد ہمیں روس سے تعلقات میں ایک اوپننگ یا بریک تھرو دکھائی دیا۔ وزیراعظم کا دورہ منسوخ یا ملتوی کئے جانے سے امکان کی یہ کھڑکی بند ہو جاتی اور پھر نہ جانے کتنے برس بعد کھلتی۔ اس لئے میری دانست میں جانا بنتا تھا۔

البتہ روسی فوجیوں کی یادگار پر پھول چڑھانا اور وہ بھی ایسے وقت جب لاکھوں روسی فوجی یوکرائن پر آگ برسا رہے ہوں، مناسب نہیں تھا۔

صدر پیوٹن اور خان صاحب کے درمیان ملاقات کی جو پریس ریلیز جاری کی گئی ہے ، بہت مناسب ہے۔ خصوصاً روس اور یوکرائن کے تنازعے پر وزیراعظم کا موقف اصولی اور غیر جانبدارانہ ہے۔ یہ مشکل صورتحال تھی اور میرا خیال ہے کہ اس سے خوش اسلوبی سے نبٹا گیا ہے۔

البتہ اس میں سے لوگوں کو بعید از قیاس قسم کے معاشی، سیاسی امکانات کیوں دکھائی دے رہے؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آئی ۔

آج جنگ کا پہلا دن ہے اور اب تک تیل کی قیمتیں 105 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں۔

چونکہ یوکرائن گندم کا بڑا پروڈیوسر ہے تو گندم کی قیمت میں ایک ہی روز میں 16 فیصد اضافہ ہوچکا۔

کوئلہ یورپ میں 55 ڈالر فی میٹرک ٹن پر پہنچ چکا جو دو سال کی بلند ترین سطح ہے۔

گیس کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

روسی کرنسی 89 روبل فی ڈالر تک گرنے کے بعد روسی سٹیٹ بنک کی مداخلت سے اب 84 روبل تک پہنچی ہے۔ یہ روسی کرنسی کی کئی برس میں ریکارڈ بے قدری ہے۔

روس کے سٹاک ایکسچینج میں ایک ہی دن میں 45 فیصد یعنی ستر ارب ڈالر کی مندی ہوئی ہے۔ تین بار ٹریڈنگ روکے جانے اور روسی بنکوں کی جانب سے دھڑادھڑ شئیر خریدے جانے کے بعد بھی صرف نو فیصد بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ یعنی ایک ہی روز میں مارکیٹ کی قدر 36 فیصد کم ہو گئی ہے۔

روس کی سب سے بڑی آئل کمپنی گیزوپروم کی 48 فیصد، جبکہ لک آئل اور نوواٹیک کی 40 فیصد سے زائد قدر گر چکی۔

اور آج جنگ کا پہلا دن تھا۔

امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے ابھی روس پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان ایک دو روز میں متوقع ہے۔ اگر امریکا اور برطانیہ روس سے تیل کی خریداری روک لیتے ہیں، جیسا کہ جرمنی نے گیس کا معاہدہ معطل کیا؛ تو روسی معیشت کے ساتھ تو جو ہوگا سو ہوگا۔ البتہ ہمارے برادر خلیجی ممالک کی گویا لاٹری نکل آئے گی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں گرین انرجی کے ڈھنڈورے پیٹے جانے کے باوجود سعودیہ، یو اے ای اور قطر کی موجیں کم نہیں ہوتیں۔ یہ ان کی خوش نصیبی ہے۔ اور ہماری بدنصیبی کہ ہم نے بھی انہی سے نقد یا ادھار تیل پکڑنا ہے۔

مسئلہ ہم یملوں کا ہے جو خواہ مخواہ بیگانی شادیوں، طلاقوں میں دیوانے ہوئے پھرتے ہیں۔ پٹرول ہم نے ادھار پکڑنا ہے اور پھر عوام کو ٹیکہ لگانا ہے۔ گیس ہمیں پہلے نہیں مل رہی، ہمارے مارچ اپریل کے تین ٹینڈرز کیلئے ہمیں صرف ایک کمپنی نے بولی دی ہے۔ اب اس کے مکر جانے کے امکان بھی روشن لگ رہے۔

ادھر یاروں کو روس کی گیس اور تیل کے خواب آ رہے۔ روس کی جن دو کمپنیوں کو پاکستان نے گیس پائپ لائن کا ٹھیکہ دیا تھا، وہ دونوں امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ بقایا پر ایک دو دن میں پابندی لگ جانی ہے۔ روس ہمیں سستے نرخوں پر یا ادھار تیل ، گیس کی فراہمی کا وعدہ کرتا بھی ہے تو اس پر عملدرآمد میں کئی طرح کی پیچیدگیاں حائل ہو جائیں گی۔

مطلب تیل میرا اور آپ ہی کا نکلنا ہے اس سچویشن میں۔

اتفاق سے یوکرائن کی گندم کے دو سال سب سے بڑے خریدار ہم رہے ہیں۔ اور اتفاق سے اس سال کھاد کی عدم دستیابی کی بناء پر ہماری گندم کا ہدف پورا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ گندم صرف آج کے دن سولہ فیصد مہنگی ہو چکی ہے۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے؟

کہنے کا مطلب یہ کہ یوکرائن کی بربادی میں اپنے لئے مواقع ڈھونڈنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

پیوٹن کے تخمینے بالکل وہی ہوتے ہیں جو کبھی ہٹلر کے ہوا کرتے تھے۔ یعنی میں کچھ بھی کر لوں، یورپ کڑوا گھونٹ بھر لے گا اور امریکا بھی گیدڑ بھپکیوں سے زیادہ کچھ نہیں کر پائے گا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے، لیکن ہمیشہ ایسا ہی ہوگا، اس کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔

جنگ شروع کرنا اپنے اختیار میں ہوتا ہے، مگر جنگ کی حرکیات کی درست پیشنگوئی کسی کیلئے ممکن نہیں ہوتی۔

پیوٹن سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے اور اس کا خمیازہ روس کے عوام اور معیشت سب سے زیادہ بھگتے گی۔ مگر عالمی معیشت پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کا خمیازہ ہم جیسے غریب ممالک نے بھگتنا ہے۔

نیز یہ کہ روس کی خاطر مغربی بلاک کی مخالفت مول لینا ہمارے لئے معاشی خودکشی ثابت ہو سکتا ہے۔ پچھلے برس پاکستان نے امریکا کو پانچ ارب ڈالر، برطانیہ کو دو اور یورپی یونین کو چھ ارب ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹس کی ہیں۔ جبکہ روس کو ہماری کل برآمدات صرف 163 ملین ڈالر تھیں۔

اسی طرح اب تک پاکستان میں امریکا کی براہ راست سرمایہ کاری ڈیڑھ ارب ڈالر، برطانیہ کی ساڑھے آٹھ ارب ڈالرز، یورپی یونین کی تین ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ جبکہ روس کی پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس لئے سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہمیں غیرجانبداری بھی وارا نہیں کھاتی۔ وزیراعظم کو دورہ روس پر بھجوانے کا مقصد اگر امریکا کو یہ باور کروانا تھا کہ تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔ تو یہ ہمارے فیصلہ سازوں کی غلطی ہے جس کا ہمیں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

بلکہ یوں سمجھیں کہ نقصان اٹھانا پڑ گیا ہے۔

جبکہ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس بس ہونے کو ہے۔ امریکا نے نیشنل بنک آف پاکستان پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت 55 ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ اس سے ہمارے وائٹ لسٹ ہونے کا امکان نہ صرف یہ کہ بہت کم ہو گیا ہے بلکہ خدانخواستہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو اس کے سنگین معاشی مضمرات ہوں گے۔

اگر یہ وزیراعظم کے دورہ روس کا ردعمل ہے تو پھر یہ دورہ ہمیں بہت مہنگا پڑا ہے۔
Beggers can’t be choosers

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے