وزیراعظم اور صحافیوں کی مقدمے بازی، اصل صورتحال کیا ہے؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں صحافیوں اور عدالتوں کو نشانہ بنایا اور الزامات عائد کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بعض میڈیا ہاؤس اور صحافی بلیک میلنگ کرتے ہیں اور عدالتیں مقدمات کے فیصلہ نہیں کرتیں۔
عمران خان نے نام لیے بغیر ایک صحافی کے بارے میں کہا کہ انہوں نے بیوی کے گھر چھوڑ جانے کی بات کی جس پر ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کیا۔
وزیراعظم کی جانب سے الزامات کے بعد پاکستانی صحافیوں نے سوشل میڈیا اور اپنے انٹرویوز میں ان کو چیلنج کیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے منسلک اینکر سلیم صافی نے ٹویٹ کیا کہ ‘عمران خان بار بار صحافیوں پر پیسے لینے کا الزام لگاتے ہیں۔ قوم سے خطاب کے دوران یہ الزام ایک بار پھر دہرایا۔’
سلیم صافی نے لکھا کہ تمام ایجنسیاں اور تفتیشی اور تحقیقاتی محکمے وزیراعظم کے ماتحت ہیں اس لیے وہ ہمت کر کے ان صحافیوں کی تفصیل جاری کریں اور بتائیں کہ کس صحافی نے کس پارٹی، کس ایجنسی، کس حکومت یا کس سفارتخانے سے کیا لیا؟
اینکر نے کہا کہ عمران خان کی حکومت تفتیش کا آغاز ان سے کر لے۔ یا پھر وزیراعظم پورے میڈیا کو بدنام کرنا چھوڑ دیں۔
اینکر ثنا بچہ نے سلیم صافی کو لکھا کہ ‘وہ جانتے ہیں کہ کون ہیں وہ۔ کیونکہ وہ خود ان کو پیسے دیتے ہیں۔ ہمت کے ساتھ جرات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔’
سینیئر تجزیہ کار اور اینکر نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام میں کہا کہ ‘خان صاحب نے قوم سے خطاب میں مجھے اتنی اہمیت دی ہے۔ مگر ایک موقع بھی دیا ہے کہ اس کا اب جواب دینا پڑے گا۔’
نجم سیٹھی نے کہا کہ ان کا جواب بڑا سادہ سا ہے، وہ عدالتوں کی بات نہیں کریں گے صرف انصاف کی بات کریں گے۔ ‘میں نے خان صاحب پر سات سال پہلے ایک مقدمہ کیا تھا جب انہوں نے مجھ پر 35 پنکچرز کے الزامات لگائے تھے۔ اس کے بعد یہ اپنے الزام سے مُکر گئے۔’
اینکر کے مطابق انہوں نے عمران خان سے کہا کہ عدالت میں آئیں۔ اور اب سات برس ہو گئے انصاف نہیں ملا۔ خان صاحب حکومت میں ہیں اور اپنے تین سال کے مقدمے کی بات کر رہے ہیں۔ ساری طاقت ان کے پاس ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طریقے سے دھکا لگا کر کیس کو چلا کر میرے خلاف فیصلہ لے لیں۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ سات سال سے عمران خان کے خلاف انصاف مانگ رہے ہیں اور ان کو انصاف نہیں ملا۔ ‘شہباز شریف نے بھی عمران خان کے خلاف کیس کیا ہوا ہے۔ ان کو بھی تاحال انصاف نہیں ملا۔
سینیئر تجزیہ کار نے تجویز پیش کیا کہ ان مقدمات کو قطار میں لگا دیتے ہیں یعنی جس نے پہلے مقدمہ کیا اس کا فیصلہ پہلے کر دیا جائے اور جس نے دوسرے اور تیسرے نمبر پر کیا اس کو بعد میں سن کر فیصلہ کیا جائے۔