یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ تیسری قسط
Reading Time: 6 minutesپچھلی قسط کا اختتام اس بات پر ہوا تھا کہ مغربی ورلڈ ویو میں تین چیزوں کی بے حد اہمیت ہے۔فری ول، یعنی بے لگام خود مختاری۔ عقلیت پسندی۔ اور طاقتور آدمی۔ اور ان تینوں کی روح الحاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا قطعا بے جا نہ ہوگا کہ مغربی فکر میں جتنے بھی فلسفے اور تصورات آئے ہیں تقریبا سب میں ہی الحاد مشترک ہے۔ مثلا آپ ہیڈن ازم یعنی تعیش پرستی، یا وجودیت وغیرہ کو بھی دیکھیں تو خدا کا انکار وہاں بھی نظر آئے گا۔ جہاں خدا کا انکار نہ ہوگا وہاں خدا کو موجود رکھ کر بھی یہ اس کی اطاعت سے انکار کرتے نظر آئیں گے۔ اس طرح کے تمام تصورات ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کے نشانے پر رہے۔ چنانچہ جب نطشے جرمنی میں بیٹھ کر خدا کو اپنی طرف سے دفن کرکے سپر مین والا بت تراش رہا تھا تو عین اس سے قبل ہی ٹالسٹائی یہ لکھ کر ہاتھ جھاڑ چکا تھا کہ قدیمی تصور یہ چلا آرہا تھا کہ اس کائنات میں جو بھی ہوتا ہے خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ پھر جدید دور (پندھرویں صدی) کے کچھ عقلمندوں نے اس تصور کو بچکانہ قرار دے کر خدا کا یہ مقام کچھ بڑے فاتحین کو تفویض کردیا۔ مثلا سکندر اور نپولین وغیرہ۔ اور اس کے پیچھے یہ تصور کھڑا کردیا کہ اگر کوئی طاقتور آدمی اپنے لامحدود اختیار کا استعمال کرکے بڑے واقعات رونما کردے تو تاریخ کا دھارا اس کی مرضی سے بہنے لگتا ہے۔ لہذا تا ریخ کا خالق طاقتور آدمی ہے، نہ کہ خدا۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں فری ول والا تصور بھی موجود ہے۔ چنانچہ ایک ہی وار سے ان دونوں تصورات کو ڈھیر کرتے ہوئے ٹالسٹائی لکھتا ہے
"اگر ہر شخص کی آزادی لامحدود ہوتی، اگر ہر شخص وہ کرنے کی طاقت رکھتا جو وہ چاہتا، تو انسانوں کی پوری تاریخ غیر مربوط واقعات کے ملغوبے کے سوا کچھ نہ ہوتی۔ اگر ہزار سال میں ملینز انسانوں میں سے ایک بھی انسان لامحدود اختیار کے ساتھ کچھ کر پانے کی طاقت رکھتا تو اس ایک شخص کا ایک خلاف قانون قدم ہی پوری انسانیت کے لئے کسی قانون کے امکان کو ختم کرکے رکھ دیتا”
اس مختصر سے ٹکڑے میں اس نے انکار خدا کی ہی نہیں بلکہ طاقتور آدمی اور فری ول کی بھی دھجیاں اڑائی ہیں اور وہ بھی ایسے عقلی استدلال کے ساتھ جس کا انکار ممکن ہی نہیں۔جس فری ول یعنی لا محدود اختیار پر ٹالسٹائی یہ مذکورہ بالا ضرب لگاتے نظر آتے ہیں۔ اس اختیار کو قابل قبول بنانے کے لئے ہی مغرب کی طرف سے ریشنلزم کا تصور پیش کیا گیا ہے کہ انسان صاحب عقل ہے وہ اس کا استعمال کرکے "سب اچھا ” ہی کرتا ہے۔ چنانچہ اس عقلیت پسندی کی دھجیاں دوستوئیسکی صرف دو سطروں میں یوں اڑاتا نظر آتا ہے:
"درست یا غلط سے قطع نظر، بسا اوقات کسی چیز کو توڑ ڈالنا ویسے ہی لطف دیتا ہے”
اس سادہ سی سطر میں دوستوئیسکی نے انسانی جبلت کے اس پہلو کی جانب متوجہ کیا ہے جس سے انکار سورج کے انکار کے برابر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ انسان ہر کام کا فیصلہ درست یا غلط کے پیمانے کو پیش نظر رکھ کر کرتا ہی نہیں۔ لھذا اس کا صاحب عقل ہونا اس بات کی گارنٹی فراہم نہیں کرتا کہ وہ جو بھی کرے گا ٹھیک ہی کرے گا۔ بہت سی چیزیں انسان محض مزے کے لئے بھی کرتا ہے۔ چنانچہ پھر دوستوئیسکی اسی پر پورا مقدمہ قائم کرکے ثابت کرتا ہے کہ یورپین قومیں سیلف ڈسٹریکشن کی راہ پر ہیں۔ ان کا پر تعیش معاشرہ اور ان کا کیپٹلزم سیلف ڈسٹریکشن کے سوا کچھ نہیں۔
دوستوئیسکی کے اس موقف کو درست طور پر اس کے ہاں موجود انسان کے تعارف سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی سب سے نمایاں شناختیں دو ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ ناقص ہے۔ اور دوسری یہ کہ یہ خود کو نقصان پہنچانے والی ہستی ہے۔ دوستوئیسکی کے اس موقف کو کو شراب نوشی، تمباکو نوشی، جوے، اور چرس سے لے کر ہیروئین تک جملہ اقسام کے نشوں کے استعمال کے پہلو سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ سب چیزیں انسان کے لئے تباہ کن ہیں۔ لیکن کیا آج بھی کروڑوں انسان ان میں مبتلا نہیں ؟ اگر عقل نقصان سے بچانے کی گارنٹی دے سکتی تو پھر تو کوئی بھی ذی عقل ان چیزوں کو چھوتا نظر نہیں آنا چاہئے تھا۔ چنانچہ یہیں سے دوستوئیسکی خدا کی اہمیت واضح کرنے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے لکھتا ہے:
"اگر خدا نہ ہو تو ہر چیز جائز ہوجائے”
اور اس کا شہرہ آفاق ناول "جرم و سزا” اسی تھیم پر کھڑا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار رسکولنی کوف کے پاس متمول عورت کے قتل کی ہر عقلی وجہ موجود تھی۔ اس کا منصوبہ بھی بے داغ تھا۔ پکڑے جانے کا کوئی اندیشہ نہ تھا۔ نہ وہ قتل کے دوران نظروں میں آیا، اور نہ ہی قتل کے بعد پکڑ میں۔ لیکن اس قتل کے بعد اس کے ضمیر نے اس کے اندرون ایسا تلاطم پیدا کردیا کہ اسے ایک پل چین نہ آئے۔ یہی تلاطم پورے ناول میں انسانی نفسیات کی پوری گہرائی کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے۔ جس بے رحمی سے جرم و سزا میں دوستوئیسکی نے ریشنلزم کا بھرکس نکالا ہے اور اسے عین انسانی نفسیات کے زاویے سے نچوڑا ہے اس سے بڑا جواب ریشنلزم کو کوئی متکلم بھی نہ دے پائے۔ یہ جو ضمیر کی آواز ہے یہ کیا ہے ؟ یہی تو خدا ہے۔
کیا ہی برموقع مرشد آئے۔ ہمارے پرانے احباب جانتے ہیں کہ ہماری عملی زندگی کا آغاز ہمارے استاد و مرشد حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے ہاں ہوا تھا۔ صرف بیس برس کی عمر میں ہم ان کے سٹاف کا حصہ بن گئے تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب ہم نے ان سے پوچھا
"دل پر مہر لگنا کیا چیز ہے ؟ اس کا اظہار کیسے ہوتا ہے ؟”
فرمایا
"جب انسان کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر چیخ چیخ کر اسے اس سے روکتا ہے۔ جب وہ اس آواز پر کان دھرتا ہے تو یہ آواز ہمیشہ آتی رہتی ہے۔ ہر غلط کام پر یہ سائرن بج اٹھتا ہے۔ یوں انسان بہت سے غلط قدم اٹھانے سے خود کو بچا لیتا ہے۔ لیکن جو لوگ سرکش ہوجاتے ہیں۔ اس آواز پر کان دھرنا بالکل بند کر دیتے ہیں۔ انہیں ایک روز یہ آواز آنا بند ہوجاتی ہے۔ اور یہی دل پر مہر ہے۔ اب اسے غلط کام غلط لگتا ہی نہیں”
آیئے واپس چلتے ہیں مغرب کے اس نام نہاد طاقتور آدمی کی طرف جو مغربی فکر میں لامحدود آزادی کے تحت تاریخ کے خالق کا درجہ رکھتا ہے۔ مغربی فکر میں یہ طاقتور آدمی دو شکلوں میں موجود ہے۔ اگر یہ اچھا ہو تو ہیرو ہے۔ برا ہو تو ولن ہے۔ چنانچہ یہیں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہالیووڈ اور بالیووڈ کا آرٹ اسی تصور پر کھڑا ہے۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اگر طاقتور آدمی ان کا اپنا ہو تو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکنے والا بھی ہیرو ہے۔ اور اگر یہ کسی اور نظریے کا ہو تو محض کار بم پھاڑنے والا بھی ولن ہے۔
ٹالسٹائی وار اینڈ پیس میں اس طاقتور آدمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے "یہ کسی کہانی کا ایسا کردار ہے جس کی تخلیق میں کہانی لکھنے والے نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے” بات صرف اس تبصرے پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ وار اینڈ پیس میں نپولین کو ایک ایسے چھوٹے قد کا آدمی بنا کر رکھ دیتا ہے جس کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہ تھی کہ وہ ایک تاریخی عمل میں محض مہرے یا کردار کی حیثیت رکھتا تھا۔ یعنی وہ کسی ایونٹ کا خالق نہیں بلکہ محض حصہ تھا۔ اور حصہ بھی بقدر جثہ۔
ٹالسٹائی کے اس موقف کو سمجھنے کے لئے استاد محترم احمد جاوید کا ایک قول زبردست مدد فراہم کرتا ہے۔ تاریخ سے متعلق مغربی تصور یہ ہے کہ بڑے ہیرو یا بڑے ولن ہی اس کے خالق ہیں۔ جبکہ استاد محترم کا تصور تاریخ یہ ہے کہ تاریخ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک اختیاری اور دوسری واقعاتی۔ مثلا میری اختیاری تاریخ یہ ہے کہ میں نے کہاں کہاں سے تعلیم حاصل کی، کہاں کہاں رہائش اختیار کی، کہاں کہاں ملازمت کی۔ جبکہ میری واقعاتی تاریخ جس میں میرا اختیار بالکل صفر ہے، یہ ہے کہ میں کس کے ہاں پیدا ہوا، کس قوم میں پیدا ہوا، اور کس ملک کے شہری کے طور پر پیدا ہوا وغیرہ۔ اب اگر غور کیجئے تو نپولین تاریخ کے ایک محدود حصے یعنی اختیاری تاریخ کے ایک کردار سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اختیاری تاریخ کا کردار کہاں سے ہوا ؟ وہ تو اپنے اختیار سے اس تاریخ کا خالق ہے تو نہیں بھولنا چاہئے کہ اس اختیاری تاریخ کو رقم کرنے کا اختیار اسے اس کی اس واقعاتی تاریخ نے فراہم کیا۔ جس میں وہ فرانس میں پیدا ہوا۔ اور وہاں کی باقی واقعاتی تاریخ نے اسے اس مقام پر پہنچایا جہاں سے اس کا فاتحانہ سفر شروع ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری اختیاری تاریخ کا بھی کل دار و مدار ہماری واقعاتی تاریخ پر ہے۔ چنانچہ ہسٹری سے متعلق اپنی تھیوری کی تفصیل میں ٹالسٹائی یہ کلید دیتا نظر آتا ہے کہ آپ حال کے کسی واقعے کو تاریخی پس منظر کے بغیر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ جو بڑا واقعہ آج رونما ہو تاہے، اس کے پیچھے تاریخ کا ایک تسلسل موجود ہوتا ہے۔ اور آج کا واقعہ اسی تسلسل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ اسے انسانی جسم کی مثال سے سمجھاتا ہے کہ سر اکیلا کچھ نہیں۔ اس کا بوجھ لاتعداد خلیوں اور بہت سے دیگر اعضاء نے اٹھا رکھا ہے۔ چنانچہ یہ نیچر کے بے شمار چھوٹے بڑے ایونٹ ہوتے ہیں جو مل کر کسی بڑے ایونٹ کا باعث بنتے ہیں۔ اور اس ایونٹ میں انسان بس ایک کردار ہی ہے۔ وہ اس کا خالق ہرگز نہیں۔ (جاری ہے)