کالم

یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ چوتھی قسط

مارچ 5, 2022 6 min

یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ چوتھی قسط

Reading Time: 6 minutes

اب ایک بہت ہی بنیادی نکتہ سمجھتے جایئے۔ کیونکہ یہی نکتہ دنیا میں نظاموں کی ضرورت اور ان نظاموں کے مابین کشمکش کا باعث ہے۔ جو بات دوستوئیسکی یوں کہتا ہے

"درست یا غلط سے قطع نظر، بسا اوقات کسی چیز کو توڑ ڈالنا ویسے ہی لطف دیتا ہے”

یہی بات قرآن مجید یوں کہتا ہے

"زمانے کی قسم۔ انسان خسارے میں ہے۔ الا یہ کہ وہ ایمان لے آئے اور اچھے اعمال کرے”

گویا قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ اگر انسان خدا کے دیئے ہوئے نظام کو اپنا کر خود کو اس کا پابند کرتے ہوئے مثبت اعمال کی راہ اختیار نہیں کرے گا تو اپنی ساخت میں یہ ایسا جاندار ہے جو کسی نظام کے بغیرنقصان یعنی تکالیف اور مصیبتوں میں ہی مبتلا رہے گا۔ یعنی بقول دوستوئیسکی خود ہی خود کو تباہ کرتا رہے گا۔ اور اس کی عقل اسے کسی طور بھی اس نقصان سے نہ بچا سکے گی۔ چنانچہ اس کرہ ارض پر ایسا کوئی گوشہ نہیں جہاں انسان کسی قلیل ترین تعداد میں بھی گروہ کی صورت موجود ہو اور وہ اپنے لئے کسی "نظام زندگی” کی ضرورت سے غافل ہو۔ مغرب بھی ایک انسانی اجتماع ہے۔ اس اجتماع نے اپنی تاریخ سے یہ سیکھا کہ "مذہبی نظام” نے انہیں نقصان پہنچایا ہے۔ لھذا مذہب کو بطور نظام خارج کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ یوں ان کی پوری فکر لادینیت پر منتقل ہوتی چلی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا مذہبی نظام واقعی ان کے لئے مضر تھا ؟ کیا اس نظام نے واقعی ان کو نقصان پہنچایا ہے؟ ہمارا جواب کامل آگہی کے ساتھ "ہاں” میں ہے۔ تو کیا پھر یہ بات بھی درست نہ ہوئی کہ ہم مسلمانوں کو بھی مذہبی نظام سے نکل کر سیکولر نظام کی طرف چلا جانا چاہئے ؟ ہمارا جواب یہاں بھی کامل آگہی کے ساتھ ہے مگر "ناں” میں ہے۔ وجہ بالکل صاف اور بے غبار ہے۔ مغربی اقوام پر پاپائیت یعنی پادری مسلط رہے۔ انہوں نے کسی خانہ زاد ملغوبے کا نام مذہبی نظام رکھ کر ان قوموں کو نچوڑا ہے۔ حالانکہ عیسائیت میں کسی نظام حکمرانی کا تصور تک موجود نہیں۔ نہ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے ریاست قائم کی۔ نہ اس کے لئے کوشش کی۔ نہ ہی اس کی کوئی تلقین فرمائی۔ بائبل کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیجئے، آپ کو نظام حکومت سے متعلق کچھ نہ ملے گا۔ بلکہ اس کے برخلاف وہاں رہبانیت یعنی گوشہ نشینی ملے گی۔ ایسے میں جب پادریوں نے ان پر ایک خود ساختہ ڈھکوسلہ مذہبی نظام کے طور پر مسلط کیا تو یہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ تھا۔ اور اس فراد کا نتیجہ وہی نکل سکتا تھا جو وہاں نکلا۔

اس کے برخلاف رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف ریاست قائم فرمائی بلکہ قرآن نے اس کے لئے اساس بھی فراہم کی۔ مثلا جب قرآن چور کا ہاتھ کاٹنے کی تلقین کرتا ہے تو کیا یہ تلقین وہ شہری کو کرتا ہے ؟ کیا مجھے کہتا ہے کہ اگرکوئی تمہارے گھر سے چوری کر لے تو تم اسے پکڑ کر باورچی خانے میں لے جاؤ اور سبزی، گوشت اور فروٹ والی چھری سے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو ؟ نہیں ! یہ ہدایت وہ حکومت کو دیتا ہے۔ کونسی حکومت کو؟ سیکولر حکومت کو ؟ سیکولر حکومت کیوں اللہ کی ماننے لگی ؟ ظاہر ہے اسی حکومت سے کہا جا رہا ہے جو اسلامی تصور کے مطابق مسلمانوں نے نائی ہوگی۔ چنانچہ اسی ضمن میں جب ہمارے دیسی لبرلز کہتے ہیں کہ یورپ نے تب ترقی کی جب انہوں نے مذہبی نظام سے جان چھڑائی۔ لھذا ہم بھی تب ہی ترقی کرسکتے ہیں جب مذہب سے جان چھڑا لیں۔ تو یہ دعوی مغرب کے پادریوں والے نظام حکومت سے بھی بڑا فریب ہے۔ کیونکہ یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا ترقی کا سارے کا سارا دور اس عرصے کا ہے جب ان کی مذہبی ریاست مضبوط تر تھی۔ جوں ہی ان کی مذہبی ریاست کمزور ہونا شروع ہوئی ان کا زوال شروع ہوگیا۔ اور یہ کسی صورت بھی تب تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک مذہبی ریاست کی جانب درست معنی میں پلٹ نہ جائیں۔ ہم ترکی کو ہی دیکھ لیں۔ سیکولر دور میں وہ 80 سال بعد بھی ترک ایک مقروض قوم تھی۔ ابھی مذہبی نظام نہیں آیا، صرف مذہبی ذہن حکومت میں آیا ہے تو ترقی کا عمل شروع ہوا کہ نہیں ؟ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ جتنا بتدریج ہوگا اتنا ہی مستحکم و پائیدار ہوگا۔

تاریخی طور پر مسلم دور کے دو حصے ہی ہیں۔ ایک ترقی کا دور اور دوسرا زوال کا دور۔ کیا یہ سمجھنے کے لئے ارسطو جتنی عقل درکار ہوگی کہ زوال کا سبب کیا بنا ؟ جوں ہی مذہب سےدور ہونا شروع ہوئے زوال شروع ہوگیا۔ اور یہ جو ترقی تھی یہ تھی کیا ؟ محض روحانی ترقی ؟ نہیں، بلکہ علمی و مادی بھی۔ آدم کی اولاد آج جہاں کھڑی ہے، یہ ایک مسلسل ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ اس ارتقائی عمل کے نتیجے میں انسانی ترقی کا جو پانچ ہزار سالہ تاریخ والا قلعہ تعمیر ہوا ہے اس قلعے سے ذرا آپ صرف خوارزمی اور فارابی کو سرکا کر دیکھ لیں۔ اسی لمحے نیوٹن اور آئن سٹائن دونوں زمین پر آگریں گے۔ جہل کی یہ پستی فکری لنڈا بازار کے مکینوں کو ہی مبارک ہو کہ وہ مسلم علمی ترقی کے دور کے ہی منکر ہیں۔ ورنہ مغرب تو کھلے دل سے اس کا اعتراف کرتا ہے۔

مذہب اور مغربی مفکرین کی طرح انسانی مصائب اور ان کا تدارک ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کا بھی موضوع ہے۔ مگر دونوں مصائب اور ان کے اسباب سے متعلق الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ دوستوئیسکی کے نزدیک انسان کے مصائب دو طرح کے ہیں۔ ایک معاشی اور دوسرے وجودی۔ گویا معاشی خارجی مصائب ہیں جبکہ وجودی داخلی۔ چنانچہ اس کے لٹریچر کے اکثر کردار غریب لوگ ہیں۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کے امیر کردار بھی مصائب کا شکار نظر آتے ہیں۔ مثلا برادر کرامازوف میں عیاش باپ اور ایک بیٹا امیر ہوکر بھی مصیبتوں کا شکار ہیں۔ گویا اس کے نزدیک محض امیر ہونا تکالیف سے نجات کی ضمانت نہیں دیتا۔ ایسا شخص وجودی پہلو سے ہی تکلیف میں مبتلا نظر آئے گا۔ یعنی اس کا موجود ہونا ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ اسے تکالیف کا سامنا ہوگا۔ اس کے نزدیک انسانی تکالیف کے تین اسباب ہیں۔ ایک سماجی سسٹم کا کمزور ہوجانا، دوسرا مذہب سے دور ہوجانا، اور تیسرا مغرب کی انفرادیت پسندی۔

ہم نے مختلف اوقات میں برادر کرامازوف پر ہمارے ہاں کی جو تحاریر پڑھی ہیں اس سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں برادر کرامازوف کو ٹھیک سے سمجھا بھی نہیں جا سکا۔ بلکہ المیہ ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ شعور ہی ناپید ہے کہ ناول کے خول سے مغز کیسے نکالا جاتا ہے۔ جسے دیکھو ناول کی سٹوری سنا کر کہے گا۔ "ارے یار کیا لکھا ہے” اب یہ تبصرہ وہ کہانی کی ساخت پر کرتا ہے۔ کیا ٹالسٹائی، دوستوئیسکی یا کوئی بھی ادیب ہمیں محض کہانی سنانا چاہتا ہے ؟ کہانی تو وہ خول ہے جس کے اندر وہ کیپسول کی طرح دوا رکھ کر ہم تک منتقل کرتا ہے۔ اسی تو ٹالسٹائی اس بات کو لغو مانتا ہے کہ ناول انٹرٹینمنٹ کا سامان ہے۔ سو اشارتا عرض کرتے چلیں کہ برادر کرامازوف میں دوستوئیسکی نے تین فلسفے ساتھ ساتھ چلائے ہیں۔ یہ تین فلسفے مذہب پرستی، عیش پرستی اور عقلیت پرستی ہیں۔ پھر بالخصوص عقل پرست بھائی والا کردار دوستوئیسکی نے عین برحق رکھا بھی ملحد ہے۔ اس ناول کے سارے کردار آپ کو تکلیف کا شکار نظر آئیں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ تکالیف سے نجات کا قائل ہی نہیں، یہ بس کم کی جانے کی کوشش ہی کی جاسکتی ہے۔ سو دست بستہ عرض ہے کہ برارد کرامازوف کو یہ تین فلسفے ذہن میں رکھ کر پھر سے پڑھئے تاکہ آپ وہ مغز حاصل کر سکیں جو فیودور دوستوئیسکی آپ کو پیش کرنا چاہتا ہے۔

انسانی مشکلات اور مصائب سے چھٹکارے کے لئے جب یورپ یہ نسخہ پیش کرتا ہے کہ عقلیت کی مدد سے شعوری ترقی انسان کو مصائب سے نجات دلائے گی تو دوستوئیسکی کہتا ہے کہ شعوری ترقی ایک حد تک ہی قابل قبول ہے۔ بس اتنی کہ اس سے صحت اور معیشت جیسے مسائل کو حل کیا جاسکے۔ اس سے زیادہ شعوری ترقی کو وہ نفسیاتی طور پر غلط ثابت کرتے ہوئے اس حد تک چلا جاتا ہے کہ خم ٹھوک کر کہتا ہے

"لیکن پھر بھی میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ بہت زیادہ شعور اور ہر قسم کا شعور حقیقت میں ایک بیماری ہے”

اسی بات کو جب ٹالسٹائی بہت پھیلا کر بیان کرتا ہے تو اس خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ تکالیف صرف جسمانی نہیں ذہنی بھی ہوتی ہیں۔ جتنا شعور زیادہ ہوگا اتنی ہی ذہنی تکلیف زیادہ ہوگی۔ مگر اس عقل پرستی پر سب سے پر لطف حملہ روس کے باہر سے ہوا ہے۔رابندرناتھ ٹیگور کہتا ہے

"بڑا شعور معذور ژراف جیسا ہے۔ کہ سر تو اس کا بادلوں کو چھو رہا ہے مگر نیچے دل اس کا بالکل اداس ہے”

ٹالسٹائی کے نزدیک انسانی تکالیف کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ فرد سماج کے لئے اپنے حصے کو کردار ادا کرنا بند کردے۔ گویا اس کے نزدیک اجتماعیت ہی تکالیف سے چھٹکارے کی ضمانت ہے۔ لھذا خاندان، سماج اور قوم کو مضبوط رکھنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ فرد کو تلقین کرکے اس کردار پر آمادہ کرلیں۔ بلکہ یہ خاندان کی ذمہ داری ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو وہ اس کی تعلیم و تربیت انہی خطوط پر کرے جس سے آگے چل کر وہ سماج کا فعال کردار بنے۔ اسی ضمن میں قوم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ جب ایک بچہ پروان چڑھ کر جوانی میں عملی میدان میں قدم رکھے تو اسے پاؤں جمانے میں مدد فراہم کرے۔ اگر خاندان اور قوم نے اپنی یہ ذمہ داری نہ نبھائی تو ٹالسٹائی کے نزدیک ایک بھی گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کارنے کے لئے کافی ہوگی۔ چنانچہ وہ وار اینڈ پیس میں قومی سطح کی بڑی اجتماعیت کے مسائل، اور اینا کرانینا میں خاندانی سطح کی چھوٹی اجتماعیت کے مسائل کو زیر بحث لاکر ان کے تدارک کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ جبکہ "دی ڈیتھ آف ایوان ایلیچ "کے ذریعے وہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ایک خود غرض شخص یعنی ایک گندی مچھلی کس طرح پورے تالاب کا بیڑہ غرق کرتی ہے۔(جاری ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے