آفتوں کا دور ہے اور حماقتیں پہاڑ جیسی
Reading Time: 4 minutesایک کمزور، لاچار اور ناکام حکومت پر جب چاروں طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہو تو اس کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں اور پھر حماقتوں پر حماقتیں سرزد ہونے لگتی ہیں۔
صدر جناب عارف علوی نےہماری نئی منی لانڈرنگ المعروف ایمنسٹی سکیم کا جو آرڈیننس جاری فرمایا ہے، وہ تضادات اور حماقتوں کا شاہکار ہے۔
ایک جانب بتایا گیا ہے کہ فلاں مدت کے اندر اندر اگر آپ فلاں فلاں شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو آپ سے آمدنی کے ذرائع بالکل نہیں پوچھے جائیں گے۔
دوسری طرف لکھا ہوا ہے کہ کرپشن، جرائم اور منی لانڈرنگ کے پیسے سے سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
جب آپ قانوناً ذرائع آمدن پوچھ ہی نہیں سکتے تو آپ کو الہام ہوگا کہ میں نے پیسہ کرپشن یا منی لانڈرنگ سے کمایا ہے؟ یہ شق محض فیٹف کی اشک شوئی کے لئے ڈال دی گئی ہے۔
مگر دوسری جانب فیٹف کے بم کو لات مارنے کے لیے یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ اس ایمنسٹی سکیم میں کی گئی سرمایہ کاری کی تفصیلات کو ایف بی آر خفیہ رکھے گی ۔ ایف آئی اے، نیب حتیٰ کہ عدلیہ کو بھی یہ تفصیلات مانگنے کا حق نہیں ہوگا۔
"The amount declared will be confidential and cannot be disclosed to any authority or court, the Federal Investigation Agency, or National Accountability Bureau by the Federal Board of Revenue”
اب اس کے بعد فیٹف ہمیں وائٹ لسٹ نہیں کرتا تو ہم رونا روتے ہیں کہ جانبداری اور تعصب برتا جا رہا ہے۔ جبکہ حال ہمارا یہ ہے کہ چھ سال ہونے کو ہیں گرے لسٹ میں آئے اور ان چھ برسوں میں ہم چار ایمنسٹی سکیمیں لانچ کر چکے ہیں۔
آپ اس ایمنسٹی سکیم کے خدو خال ملاحظہ فرمائیں اور پھر این بی پی پر منی لانڈرنگ کے کیس میں ہونے والے 55 ملین ڈالرز کے جرمانے کو دیکھیں تو خود سوچ لیں کہ آپ فیٹف کی جگہ ہوتے تو پاکستان سے کیا سلوک کرتے؟
دوسری جانب اپوزیشن کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کیلئے جو پٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی وہ بھی گلے پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ آئل کمپنیوں سے مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ وہ کہہ رہے کہ ہمیں اب تک 2008 والے قیمتوں کے فرق کے واجبات نہیں ملے، ہم یہ کیسے مان لیں کہ اس بار وقت پر ادائیگی ہو جائے گی؟ دوسرے بنکوں نے پٹرولیم سیکٹر کے مشکل حالات دیکھ کر کریڈٹ بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔ اب آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو تیل خریدنے میں پیسے کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
تیسرے اس وقت برینٹ کا ریٹ 116 ڈالر فی بیرل چل رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ خام تیل ہمیں 131.33 روپے فی لیٹر پڑ رہا ہے۔ اس میں شپنگ، ریفائننگ اور آئل کمپنیوں اور گیس سٹیشنز کا پرافٹ مارجن شامل کر لیں تو حکومت کو 149 روپے میں شاید ایک روپے کی گنجائش بھی نہیں بچی۔
سعودیہ سے تاخیری ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی اس ماہ شروع ہو رہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ادھار پر مہنگا تیل خرید کے اور اس پہ ساڑھے تین فیصد سود ادا کر کے عوام کو وہ سستا فراہم کریں گے۔
پٹرول دس روپے فی لیٹر سستا ہونے سے عوام کی داڑھ بھی گرم نہیں ہوئی۔ کیونکہ مہنگا ہونے پر جو اشیاء کے نرخ اور کرایے بڑھائے گئے تھے، ان میں تو کمی ہوئی نہیں۔ الٹا حکومت نے اپنے سر پر بہت بڑا بوجھ ڈال لیا ہے۔
اس کے ساتھ خارجہ پالیسی کی قلابازیاں بھی جاری ہیں۔ روس یوکرین تنازع پر اپنے پچھلے مضمون میں عرض کیا تھا کہ ہم جیسے ملکوں کو غیرجانبداری وارا نہیں کھاتی۔
مزید عرض یہ ہے کہ غیرجانبداری کا جب ایک فریق کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اسے کوئی غیرجانبداری سمجھتا بھی نہیں۔
یہی دیکھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے غیرجانبداری کا تاثر ہی دیا ہے تو اپوزیشن کی پروازیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ غیرجانبداری درپردہ حمایت ہوتی ہے۔
ہماری یہ درپردہ حمایت اس وقت روس کو میسر ہے۔ نہ ہم نے سرکاری سطح پر اس کی جارحیت کی مذمت کی، نہ ہی ہم نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اب ہم بھلے خود کو غیرجانبدار کہتے رہیں، دنیا کو پتہ چل چکا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ روس کی حمایت کے جو فائدے گنوائے جا رہے ہیں وہ سب فی الحال خواب ہیں اور مغرب کے ہاتھ میں جو ڈنڈا ہے، وہ حقیقت ۔ اب آپ ڈنڈے کے ہوتے ہوئے بھی خواب دیکھ سکتے ہیں تو یہ آپ کی ہمت ہے۔
ہماری خود غرض اور بے رحم اشرافیہ کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے خود فرنچائزز بھی مغرب سے لینی ہیں۔ بچے بھی وہیں پڑھانے ہیں، جائیدادیں بھی امریکا اور یورپ میں بنانی ہیں، خود مستقل سکونت بھی وہیں رکھنی ہے، مگر عوام کو یہ امریکا اور یورپ کے خلاف بھڑکائے رکھتے ہیں۔
ایک بار پھر یاددہانی کروا رہا کہ ہماری چالیس فیصد برآمدات امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کو جاتی ہیں جبکہ روس نے پچھلے برس ہم سے پونے دو سو ملین ڈالر کا سامان خریدا ہے۔
چالیس سے پچاس لاکھ پاکستانی یورپ اور امریکا میں پائے جاتے ہیں جن کی ترسیلات زر سے گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کی پاکستان میں سرمایہ کاری بارہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے، روس کی تقریباً صفر۔
روس اور چین کے بلاک والی تھکی ہوئی کہانی صرف پاکستان میں بک رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین کے مرکزی بینک کی ہانگ کانگ اور سنگاپور برانچوں نے بھی روسی کمپنیوں سے لین دین بند کر دیا ہے۔ ہم تو چلیں کمزور ملک ہیں، غیرجانبداری کا بہانہ بنا رہے۔ چین کی بھی ہمت نہیں ہے کہ کھل کر روس کی حمایت میں ووٹ دے سکے یا اس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کر سکے۔
اپنے زمینی حالات دیکھ کر اپنے مستقبل کی سمت متعین کرنا چاہئے۔ یوتھیوں اور ففتھیوں کا اگر بس چلے تو یہ ہمیں افغانستان اور یمن بنا کر دم لیں گے۔ ڈان میں فہد حسین نے اس معاملے میں ہماری خارجہ پالیسی پر بہت شاندار مضمون لکھا ہے۔