یوکرین پر حملہ اور رشین ادب/ پانچویں قسط
Reading Time: 6 minutesلیو ٹالسٹائی اور فیودور دوستوئیسکی انسان کو محض ایک جنس کی نظر سے ہی نہیں دیکھتے۔ یعنی ان کے نزدیک انسان دنیا کے چار کونوں میں سے جس کونے کا بھی ہو ایک ہی چیز نہیں ہے کہ آپ ایک ہی نسخہ تجویز کردیں اور وہ ہر جگہ چل جائے۔ ان کے نزدیک انسان کی ساخت میں اہم ترین کردار اس خطہ زمین کاہوتا ہے جہاں اس کی پیدائش اور پرورش ہوئی۔ یہ خطہ بود و باش کے لئے بہت آسان اور سہولتوں سے بھرپور ہوا تو یہاں بسے انسانوں کی جسمانی، اعصابی اور نفسیاتی ساخت اسی کے مطابق ڈھیلی ڈھالی ہوگی۔ لیکن اس کے برخلاف اس خطے کا انسان انہی پہلوؤں سے ان سے بالکل مختلف ہوگا جو تاریخی طور پر ایک مشکل خطہ زمین کا باشندہ ہے۔ اگر آپ ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کے اس تصور کو عملی شکل میں سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کسی ایک ہی ملک کے دیہاتی اور شہری باشندے کا تقابل کرکے دیکھ لیجئے۔ اس سے بھی زیادہ سمجھنا چاہیں تو پاکستان کے پہاڑی اور میدانی علاقوں کے باشندوں کے بود و باش کا فرق دیکھ لیجئے۔ زمینی خطوں کی ساخت انسانی ساخت پر اتنا گہرا اثر ڈالتی ہے کہ پہاڑی اور میدانی لوگوں کی خوراک تک میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ مثلا میدانی لوگوں کی ترجیحی غذا روٹی جبکہ پہاڑی لوگوں کی چاول ہے۔ اور یہ تو سائنسی طور پر بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ غذا انسانی نفسیات اور مزاج پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ مثلا سبزی خور قومیں جنگ سے حتی الامکان احتراز برتتی ہیں جبکہ گوشت خود قومیں جنگجو ہوتی ہیں۔ اور یہیں سےنظریات کا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نظریات تو تشکیل ہی بود باش کے ضابطوں کے لئے پاتے ہیں۔
چنانچہ رشین انسان کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی دونوں یہ موقف رکھتے ہیں کہ روسی باشندہ دنیا کے مشکل ترین موسم والے خطے کا باشندہ ہے۔ اس خطے کی سردی بہت شدید ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا دورانیہ بھی دوسرے خطوں سے زیادہ طویل ہے۔ سو یہاں کے باشندے کو زندہ اور صحت مندرہنے کے لئے زیادہ جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ جس سے اب رشین نسل کے مزاج میں دو بہت ہی اہم چیزیں شامل ہوگئی ہیں۔ ایک یہ کہ رشین بہت باہمت ہوتے ہیں۔ انہیں زندگی گزارنے کے لئے بہت ہمت درکار ہوتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ رشین باشندہ انتہاء درجے کا حقیقت پسند ہوتا ہے۔ یہ خوش فہمیاں پالنے کا رسک لے ہی نہیں سکتا۔ خوش فہمی اور غفلت کا شکار ہوگا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ چنانچہ موسمی حالات کے مقابلے نے اسے ہر طرح کے حالات کے مقابلے کے لئے تیار کردیا ہے۔ اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کا صحت مند ہونا ہی نہیں بلکہ خوب توانا اور باہمت ہونا بھی خود اس کی بود و باش کا لازمی تقاضا ہے۔ اور یہ بے رحم حقیقت پسندی ہی ہے جس نے رشین ادب کو دنیا میں ممتاز ترین مقام عطاء کیا ہے۔ رشین ادب سرابوں، سبز باغوں، خوش فہمیوں اور آئیڈیلزموں سے خالی ملے گا۔ وہاں سفاکانہ حد تک حقیقت پسندی نظر آئے گی۔
سو اب ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ٹالسٹائی خاندانی و اجتماعی زندگی کو بہت اہمیت کیوں دیتا ہے۔ یہ روس کا مشکل بودوباش والا ماحول ہے جو اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ کیونکہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے انسان کو ہمیشہ دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ جبکہ مغربی فلسفہ تو خاندان کی ہی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ روسی باشندے کو ہمیشہ باہمت رکھنے کے لئے رشین ادب میں دو بہت ہی اہم کردار ملتے ہیں۔ یہ کردار ٹالسٹائی اور دوستوئیسکی کے ہاں ہی نہیں بلکہ دوسرے ادیبوں کے ہاں بھی موجود ہیں۔ پہلا کردار ہےلشنے چلاویک۔ جس کا انگریزی مطلب superfluous man ہے۔ یہ بہت ہی دلچسپ کردار ہے۔ اس کی تخلیق و ترویج پر پورا رشین لٹریچر داد کا مستحق ہے۔ سپرفلس مین وہ شخص ہے جس کی تعلیم اعلی ہے۔ جس کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ وہ زندگی عیش و عشرت والی گزارتا ہے۔ اس کا دماغ بہت زرخیز ہے۔ وہ بولتا ہے تو دانش کے پھول جھڑتے ہیں۔ لکھتا ہے تو بلند خیالات کے قلعے تعمیر کر دیتا ہے۔ مگر وہ عمل کے لحاظ سے صفر ہے۔ یعنی وہ صرف گفتار کا غازی ہے، کردار اس کے پاس بالکل نہیں ہے۔ وہ بس بول اور لکھ ہی سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ حسن نثار جیسےدیسی لبرل دانشوروں جیسی ہستی ہے۔ اور یہ رشین لٹریچر کا سب سے گھٹیا کردار ہے۔ یہ کردار اپنے معاشرے میں بے عملی کی حوصلہ شکنی کے لئے ہی انہوں نے تخلیق کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس مقصد کے لئے ہمارے اردو لٹریچر میں "ملا” کا کردار استعمال ہوا ہے۔ بعینہ رشین ادب میں سپرفلس مین کا کردار ہے۔ گویا وہ اپنے معاشرے کو اس مخلوق سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں جو ہمارے ہاں "ٹی ہاؤس” کا دانشور ہے۔
چنانچہ رشین ادب میں اصل آدمی وہ ہے جس کے پاس خیالات بیشک بہت اعلی نہ ہوں مگر وہ عمل اور کردار رکھتا ہو۔ کیونکہ زندگی کے رنگ خیالات سے نہیں عمل سے تخلیق پاتے ہیں۔ بالخصوص فیودور دوستوئیسکی تو صاف کہتا ہے کہ جو جتنا کم سوچتا ہوگا وہ اتنا ہی خوش و خرم نظر آئے گا۔ پھر وہ اس کی تفصیل میں کہتا ہے کہ میرا پسندیدہ شخص "بے دھڑک آدمی” ہے۔ وہ آدمی جو سوچتا اور بولتا کم ہے مگر کرتا زیادہ ہے۔ حتی کہ نتائج کی پروا کئے بغیر بھی میدان عمل میں کود جاتا ہے۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اس طرح کے لوگ تو بیوقوف ہوتے ہیں۔ دوستوئیسکی بھی یہی سمجھتا ہے۔ چنانچہ وہ کتا ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا آدمی تو بیوقوف ہوتا ہے۔ تو کیا ہوا ؟ تھوڑا بہت بیوقوف تو ہر شخص ہوتا ہے۔ یہ بیوقوفی ہی تو ہے جس سے انسان سیکھتا ہے۔ وہ عقل کس کام کی جو انسان کو باعمل بننے سے روک دے ؟
چنانچہ ڈوستوئیسکی کا ماننا ہے کہ یورپین فکر عیاشی اور انفرادیت پسندی کا جو ماحول پیدا کرتی ہے وہ روسی مزاج سے ہی مطابقت نہیں رکھتا۔ وہاں کا کوئی بھی فلسفہ روس کے لئے نہ صرف یہ کار آمد نہیں بلکہ نقصان کا باعث ہوگا۔ وہ صاف لفظوں میں تلقین کرتا ہے کہ روسیوں کو مغرب کی جدیدت اور عقل پسندی سے بچ کر رہنا ہوگا۔اس کا ماننا ہے کہ رشینز کے لئے موزوں ترین نظام وہی ہوگا جو خود روسی اپنے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیں گے۔ اور اس نظام کی اساس اس بات پر ہوگی کہ انسان کی منزل یہ نہیں کہ وہ بہت سی علمی ترقی کرکے اپنے لئے بہت سی آسائیشوں کا حصول ممکن بنائے۔ آسائشیں آج تک انسان کی پیاس نہ بجھا سکیں۔ جس کے پاس ہر طرح کی آسائشیں ہیں وہ بھی غیر مطمئن ہے۔ آسائشوں کے حصول کا یہ سفر رکتا نہیں۔ اور ان کے حصول کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اب کرنا کیا ہے ؟دوستوئیسکی کے نزدیک انسان کو صرف ایک ہی چیز مطمئن کرسکتی ہے اور وہ ہے بامقصد زندگی۔
مغربی فکر اور الحاد سے بچنے کی فیودور دوستوئیسکی نے جتنی بھی تلقین کی سب اس کے دور میں رائیگاں گئی۔ وہ تحریک جو وہاں اس کی حیات میں ہی پکنی شروع ہوگئی تھی 1917ء کے انقلاب روس پر منتج ہوئی۔ جو سوشلسٹ نظام وہاں آیا وہ یورپ سے ہی ماخوذ تھا۔ ولادی میر لینن اور جوزف سٹالن نے اسے اپنا اپنا تڑکا ضرور لگایا مگر یہ تڑکا زہر کی شدت میں اضافے کا باعث بنا۔ انقلاب کے والیوں نے دوستوئیسکی کو تو بالکل نظر انداز کردیا۔ جبکہ ٹالسٹائی کے کام کو انہوں نے فروغ دیا۔ بالخصوص اس کا ناول وار اینڈ پیس سوویت فوج کو فراہم کیا گیاکہ اس سے مورال مضبوط ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1946ء میں اس پر بیسڈ ایک ڈرامہ بھی بنایا گیا۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کا فاتح سوویت یونین ہے۔ ہٹلر کی شکست کا آغاز لینن گراڈ سے ہوا تھا۔ اور جرمنی میں سب سے پہلے داخل ہونے والی فوج بھی روس کی ہی تھی۔ اس جنگ میں روس نے ایک کروڑ 68 لاکھ انسانی جانوں کی قربانی دی ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ کی ملا کر بھی جانی قربانی دس لاکھ سے کم ہے۔ سوویت حکام کا ماننا تھا کہ اس فتح میں ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس کا مرکزی کردار رہا۔جس نے نپولین کی شکست کے اسباب و نتائج کو یوں ڈھالا کہ ہٹلر کی شکست بھی ممکن ہوگئی۔ اور یہی وجہ ہے مغربی طاقتیں ہمیشہ روس کا حربی میدان میں سامنا کرنے سے احتراز کرتی ہیں۔
ہر چند کہ ٹالسٹائی سوویت دور میں چھایا رہا۔ مگر آگے چل کر ہوا وہی جو دوستوئیسکی نے کہا تھا کہ یورپین نظام روس میں نہیں چل سکتا۔ اس بات کا احساس 70 کی دہائی تک کمیونسٹ قیادت کو بھی ہوچلا تھا۔ چنانچہ 70 کی دہائی کے بعد بتدریج دوستوئیسکی آگے آنے لگا۔ ٹالسٹائی اسی مقام پر کھڑا رہا جہاں اسے لینن اور سٹالن نے کھڑا کیا تھا۔ اسے کسی نے پیچھے نہیں کیا۔ بس بہت پیچھے سے دوستوئیسکی پہلے ٹالسٹائی کے برابر آیا اور پھر اس سے آگے نکل آیا۔ سوویت زوال کے بعد والا روس اس بات کا قائل کہ دوستوئیسکی سچ کہتا تھا کہ ہمارے لئے کوئی بیرونی نظام مفید نہیں۔ روسی اس نتیجے پر یوں پہنچے تھے کہ سوشلسٹ نظام کے خلاف بے چینی پہلے ہی دس سال میں پھیلنی شروع ہوگئی تھی۔ اور پھر لوگوں میں اس کے خلاف اسی طرح حلقے بھی بننے شروع ہوگئے تھے جس طرح دوستوئیسکی اور ٹالسٹائی کے حیات میں غلامی کے خلاف بن گئے تھے۔ مگر سٹالن نے اسے پوری بے رحمی سے کچلا۔ صرف 1930 سے 1953 کے مابین ہی ایک روڑ 80 لاکھ لوگوں کو سائبیریا کی گولاگ نامی سرد جہنم میں بطور سزا دھکیلا گیا جن میں سے 17 لاکھ لوگ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے مگر بات بنی نہیں۔ بالآخر 70 کی دہائی میں کمیونسٹ حکام بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ دوستوئیسکی نے سچ ہی کہا تھا۔ یہ نظام فیل ہوگیا۔ چنانچہ جب انہوں نے اسے ڈھیلا کرنا شروع کیا تو اس کے بخیے ہی ادھڑنا شروع ہوگئے۔ اور پھر افغان جنگ نے رہی سہی کسر بھی تمام کردی۔ (جاری ہے)