سات دن، پانچ گولیاں اور آٹھ مارچ
Reading Time: 3 minutesاگر آپ صاحب اولاد ہیں یا نہیں بھی ہیں، سات دن کے نومولود کو کبھی ہاتھوں میں تھام چکے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آغازِ زندگانی کے موقع پر انسان میں اتنی صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ گردن سنبھال سکے۔ آپ بچی کی گردن ڈھلکتی دیکھتے ہیں اور آپ کا ہاتھ بے اختیار، غیر ارادی طور پر گردن پر چلا جاتا ہے تاکہ سنبھالا جا سکے۔ غالبا اسے انگریزی میں reflex action یا کم سے کم بھی involuntary action کہتے ہیں جو آپ بغیر کسی ارادے کے کر دیتے ہیں کیونکہ دماغ پروگرام ہوتا ہے ایسا نہ کرنے کی صورت میں نقصان سے دوچار ہونے کا۔
ایک بار پھر یاد دہانی کرواتا چلوں۔ آپ نے اگر کسی نومولود کو اٹھایا ہو تو اس کی گردن آپ غیر اختیاری طور پر سنبھالتے ہیں۔
کیوں؟
کیونکہ آپ انسان کے بچے ہیں۔
فرض کیا اگر آپ انسان کے بچے نہیں بھی ہیں تب بھی کم از کم ممالیوں کی حد تک عقل رکھنے والے حیوانات بھی اولاد کے تحفظ کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں۔ یہ خصوصیات فطرت کی جانب سے عطا شدہ ہوتی ہیں۔
لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد میں ایک جنس کا عدم، انسانیت کجا حیوانیت کے درجے سے بھی نیچے گرا دیتا ہے۔ میں تو اسے بھیڑیا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ بھیڑیا نہایت ہی فیملی اورئینٹڈ جانور ہے۔ یہ بدبخت بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے سات یوم کی بیٹی کے اس معصوم جسم میں جو خود اپنی گردن، اپنا سر سنبھالنے تک پر قادر نہیں، پوری پانچ گولیاں اتار دیتا ہے۔
میں سوچتا ہوں، میرا بیٹا میکائیل تین برس کا ہونے والا ہے، سات دن کی بچی تو بہت چھوٹی ہوگی۔ اس کا نشانہ لینے کے لیے ٹھیک ٹھاک ارتکاز درکار ہوگا۔ کیا کوئی انسان ایسا بھی ہے جو سات دن کی بچی کے جسم میں پانچ گولیاں اتارنے کے لیے خود کو کمپوز کر سکے؟
اور اس سب کی وجہ بھلا کیا تھی؟
بیٹے کی خواہش؟ اتمام حجت کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ بیٹے کی خواہش بہت شدید ہوگی۔ لیکن اتنی شدید کہ اس کے ردعمل میں سات دن کی بیٹی پر پانچ فائر؟
ڈز۔۔۔ ڈز۔۔۔ ڈز۔۔۔ ڈز۔۔۔ ڈز
پانچ فائر؟
یہ سفاکیت ہے۔ یہ حیوانیت سے بھی کسی اگلے درجے کی بات ہے۔
لیکن یارو۔ کم از کم اتنا تو مان لو کہ یہ ایک جنس کے خلاف جذبات تھے جن کا شاخسانہ غیر انسانی عمل کی شکل میں سامنے آیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ جس معاشرے میں سات یوم کی معصوم بچی کو اس کی جنس کی بنیاد پر پانچ گولیوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، وہاں سات سالہ، سترہ سالہ، ستائیس سالہ یہاں تک کہ ستر سالہ عورت کو بھی فقط عورت ہونے کے باعث کن کن ذلالتوں سے نہیں گزارا جاتا ہوگا؟
آپ کو فیمنسٹوں سے چڑ ہے، آپ چڑتے رہیے، لیکن کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے؟ اگر اپنی نفرت میں کسی درست بیانیے کو غلط کہنا یا اس کے خلاف عمل کرنا درست ہے تو پھر اس بدبخت باپ نے بھی شاید ٹھیک ہی کیا کہ بیٹے کی چاہ میں بیٹی سے اس حد تک نفرت کی کہ اس کے زندہ رہنے کا حق تک چھین ڈالا؟
آپ کو کیا لگتا ہے؟ یہ سات دن کی بچی خود اٹھ کر احتجاج کر سکتی ہے؟ اس بچی کو چھوڑیں، کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ اس کی ماں کے پاس اس کے لیے احتجاج کا ماحول میسر ہے؟
نہیں میسر۔
تو پھر آنے دیجیے سڑکوں پر ان کی جگہ ان کے لیے بولنے والوں کو۔ وہ کسی این جی او کی آنٹی ہیں یا کسی کالج کی لڑکی، وہ آپ کی ماں ہے یا میری بہن، آنے دیجیے۔ خوف کیا ہے؟ خطرہ کیا ہے؟ اگر آپ مطمئن ہیں اپنی تربیت سے تو کیا مسئلہ ہے؟ اور اگر آپ کو اپنی تربیت ہی پر شک ہے تو پھر بچا کس سے رہے ہیں آپ اپنی رعیت میں رہنے والی عورت کو؟ وہ تو پہلے ہی زبوں حالی کی جانب گامزن ہے۔
سات دن کی بچی۔ . اور پانچ گولیاں۔
نہیں۔ ایسا نہیں چلے گا۔ یہ اچانک نہیں ہوا کرتا۔ ہر بیوی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر کس حد تک جا سکتا ہے۔ میری دانست میں عورت کے حقوق اور اسے استحصال سے آزاد کرانے کے نام پر مارچ کرنے سے، دن منانے سے کسی نہ کسی عورت کے کان پر جوں تو رینگے گی کہ کہیں اس قسم کے سفاک مرد سے پالا پڑ بھی جائے تو کب، کس وقت اپنے یا اپنی اولاد کے لیے آواز اٹھانی ہے۔
اور جب تک معاشرے کی ہر عورت اتنی باہمت نہ ہوجائے کہ اپنے یا اپنی اولاد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی مکمل قوت کے ساتھ مخالفت کر سکے ظالم سے لڑ سکے، میرے قلم کا وزن عورت مارچ کے حق میں رہے گا۔