اگلے تمام ممکنہ منظرنامے نہایت ہولناک ہیں
Reading Time: 3 minutesآنے والے تمام ممکنہ منظرنامے یا سینیریوز نہایت خطرناک ہیں۔
سینیریو نمبر 1: عمران خان عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو صورتحال مزید خراب ہوگی، معاشی محاذ پر بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ایک بہت بڑا درد سر بن کر سامنے آنے والا ہے، اسی طرح جس قسم کی حرکتیں وہ اس وقت کر رہے ہیں وہ معاملات کو مزید دگرگوں کر دیں گی،پاکستان کے پاس اتنی فسکل سپیس ہے ہی نہیں کہ وہ آئل کی قیمتوں میں اضافے کو جذب کر سکے، ان کے اس عمل سے چار پانچ سو ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑنے والا ہے۔
اسی طرح وہ الیکشن موڈ میں جا چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ ترقیاتی اسکیموں میں انویسٹ کریں گے جو فسکل سپیس کے مطابق نہیں ہیں۔اسی طرح وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے موجودہ معاہدے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال چکے ہیں جس کا آپ ہی آپ مطلب ہے کہ اگلی قسط ملنے کے امکانات بقدر اشک بلبل ہیں اور اس کا براہ راست بوجھ پاکستانی کرنسی کی قدر پر پڑنے والا ہے، دوسری طرف پیٹرولیم کی عالمی قیمتیں بھی مہنگائی میں بے حد اضافہ کرنے والی ہیں۔
اسی طرح سترہ ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی بھی درد سر بننے والی ہے۔
سیاسی محاذ پر بھی عمران خان اس وقت ایک کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں، سیاسی ابتری انویسٹرز کو انویسٹمینٹ کرنے سے روک رہی ہے۔
سینیریو نمبر 2: اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے اور ایک مخلوط حکومت بن جاتی ہے تو وہ سارے معاشی چیلنجز جو عمران خان کو درپیش ہیں ویسے کے ویسے ہی رہیں گے جیسے عمران خان کے لئے ہیں لیکن خارجی محاذ پر شاید وہ عمران خان سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں اور چین، سعودی عرب سے کچھ انویسٹمینٹس کروا سکتے ہیں۔مخلوط حکومت کا سب سے بڑا نقصان یقینی طور پر یہ ہوگا کہ سب جماعتوں کے مفادات الگ الگ ہوں گے اور دوسری طرف عمران خان اپوزیشن میں واقعی بہت خطرےناک ہوں گے، مجھے اس صورت میں بھی کسی قسم کا سیاسی استحکام آتے نظر نہیں آ رہا۔
سینیریو نمبر تین : اسٹیبلشمنٹ براہ راست حکومت سنبھال لیتی ہے۔
یہ منظرنامہ شاید بقیہ دونوں سینیریوز سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگا۔اس کے عوامل و عواقب پر گفتگو کرنا فقط تضع اوقات ہی ہوگا کیونکہ مشرف دور کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
پاکستان کے مسائل کا حل سیاسی استحکام میں ہے اور سیاسی استحکام کے لئے ضروری عوامل درج ذیل ہیں۔
1.پولرائزیشن میں کمی
2.عوام میں اس پیغام کا پہنچنا کہ ملک سیاستدان ہی چلایا کرتے ہیں اور وہ بہت سی غلطیاں کرتے ہیں لیکن ایک اچھا سسٹم ان کو راہ راست پر رکھتا ہے لہذا سسٹم زیادہ اہم پے اور اس کے لوپ ہولز ختم کرنے کے لئے ایک لارجر کنسینسز درکار ہے۔
3.تبدیلی ایک صبر طلب عمل ہے اور پاکستان بننے کے بعد سے ہم اس عمل سے گذر رہے ہیں اور جتنا زیادہ اوئیر نیس ہوگی اتنا ہی سسٹم کو مضبوط کرنے کی طلب بڑھے گی۔
4.عوام کا جس سیاسی لیڈر شپ پر اعتماد ہے اس سب کو سٹیک ہولڈر بنایا جائے.
5 اسٹیبلشمنٹ اپنی ان پُٹ تو دے لیکن اپنے آپ کو مسلط کرنے سے باز رہے اور سویلین سپرمیسی کو تسلیم کرے۔
6.لانگ ٹرم پالیسیز بنا کر ان پر تمام سیاسی لیڈر شپ کا اتفاق رائے حاصل کیا جائے۔
7.نئے الیکشن کروائے جائیں جن سے پہلے کچھ اصول طے کر لئے جائیں کہ آنے والے کو پانچ سال ملیں گے اور اس کا احتساب ٹرم ختم ہونے پر ہوگا۔
اگر یہ سب کچھ نہ کیا گیا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہم آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جائیں گے۔