کالم

عدم اعتماد کی تحریک معیشت پر ڈرون حملہ کیوں؟

مارچ 14, 2022 5 min

عدم اعتماد کی تحریک معیشت پر ڈرون حملہ کیوں؟

Reading Time: 5 minutes

خدا لگتی کہوں تو پہلی بار خان صاحب کی پالیٹکس کا مزا آ رہا ہے۔ جس طرح سے وہ فائٹ بیک کر رہے ہیں، مخالفین کو للکار رہے اور اسٹیبلشمنٹ کو طعنے دے رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ خان میں ابھی بہت دم باقی ہے۔

باقی اصولوں اور اخلاقیات وغیرہ کو گولی ماریں۔ ان سے نہ تو ان کے مخالفین کا کچھ لینا دینا ہے نہ خان صاحب کا۔ مولانا کو ڈیزل یا شریفوں اور زرداریوں کو چور ڈاکو نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے ؟

جب ایسی ہی بکواس مولانا یا شریفوں، زرداریوں کے تنخواہ دار خان کے متعلق کریں تو وہ بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کہلائے اور خان کرے تو بکواس۔ مطلب اتنی منافقت بھی اچھی نہیں ہوتی بھائی۔

خان صاحب نے جس طرح یکے بعد دیگرے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ہے اور تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جس طرح ایک ملین یوتھیے اسلام آباد میں اکٹھا کرنے کا پلان بنایا ہے۔ یہ بہت سمارٹ موو ہے۔

ان کے دو جلسوں نے پی پی کے دس بارہ روزہ عوامی مارچ کا اثر زائل کر کے رکھ دیا ہے۔ یوتھیوں کو دوبارہ چارج کر دیا ہے۔ احتساب اور لوٹی ہوئی دولت والا جو نعرہ نیم مردہ ہو گیا تھا اس میں دوبارہ جان ڈال دی ہے۔

تمام پرانی جماعتوں کے اکٹھ، اتحادی جماعتوں کی منافقت نے خان صاحب کے اس موقف کو کم از کم ان کے حامیوں کی نگاہ میں دوبارہ سچ ثابت کیا ہے کہ سب چور، ڈاکو مل کر ایک ایماندار آدمی کو گرانا چاہتے ہیں۔

اس سے یہ تاثر بھی گہرا ہوا ہے کہ کم از کم عوام کو موبلائز کرنے میں ابھی خان کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں سوائے قائد جمہوریت سلیش نیلسن منڈیلا سلیش چی گویرا جناب میاں محمد نواز شریف کے، جو لندن بیٹھے دہی کے ساتھ کلچے کھا رہے اور اسٹیبلشمنٹ سے ایک بار پھر مک مکا کر کے ووٹ کو عزت دلوا رہے ہیں۔

ان کی جماعت میں مریم نواز کے علاوہ کوئی ایک لیڈر بھی نہیں جس کا منہ دیکھنے کو دس بیس ہزار بندہ کہیں اکٹھا ہو جائے۔ پارٹی بہانے ڈھونڈتی ہے ڈرائنگ روم میں چھپے رہنے کے۔ یہی دیکھ لیں کہ عدم اعتماد کے بہانے انہوں نے کتنی صفائی سے لانگ مارچ سے جان چھڑا لی ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں انٹری دینے کے لیے جتنا زور درکار ہے وہ شہباز شریف دوسرا جنم لے کر بھی نہیں پا سکتے۔

سچ یہ ہے کہ میں اب تک نہیں سمجھ پایا کہ تحریک عدم اعتماد جیسے بیہودہ آئیڈیا پر میاں نواز شریف جیسا گھاگ سیاستدان کیسے راضی ہو گیا؟ پارٹی کا دباؤ یا اقتدار کی بھوک یا پھر دونوں؟

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام دونوں صورتوں میں اب لانگ ٹرم میں خان صاحب اور پی ٹی آئی زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ ان کے بعد پی پی اور سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ نون کو ہوگا۔

خان صاحب کی طرز حکومت سے یوتھیوں کے سوا پاکستان میں کوئی بھی مطمئن نہیں تھا مگر ایک بہت بڑی اکثریت ہے جسے اس موقع پر تحریک عدم اعتماد بےوقت کی راگنی لگ رہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد نہ صرف یہ کہ بے وقت کی راگنی ہے بلکہ پاکستان کی سیاست اور معیشت پر ڈرون حملہ بھی۔ فرض کر لیجیے کہ یہ کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے کچھ چیدہ چیدہ نتائج یوں نکلیں گے۔

1- سب سے پہلے تو یہ کہ ایک ہی سال میں یکے بعد دیگرے وفاق میں چار حکومتیں ہمیں سہنا پڑیں گی۔

یعنی خان صاحب جائیں گے، پھر لگڑبھگوں کا یہ غول اپنی عبوری حکومت بنائے گا۔ اس عمل میں یقیناً بھان متی کے اس کنبے میں جوتیوں میں دال بٹے گی۔

پھر تین، چھ یا نو دس ماہ بعد نگران حکومت قائم ہوگی۔ جس کیلئے اس وقت کی اپوزیشن یعنی خان صاحب اور حکومت میں اتفاق ناممکن ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جا کر حل ہوگا۔

تین ماہ یہ نگران حکومت رہے گی اور پھر بالآخر عام انتخابات اگر اسٹیبلشمنٹ کے وعدے کے مطابق فری اینڈ فئیر ہوئے تو ہمیں ایک اور معلق پارلیمنٹ نصیب ہوگی۔ جس سے اگلے پانچ سال کی حکومت کا چناؤ ہوگا۔

2- خان صاحب کی رخصتی کے بعد بننے والی عبوری حکومت بڑے پیمانے پر وفاقی اور صوبائی بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنی مرضی کی ٹیم لائے گی۔ چند ماہ بعد نگران حکومت ایک بار پھر یہی ایکسرسائز دہرائے گی تاکہ ان کے لائے ہوئے بندے الیکشن کے عمل پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔ اور پھر الیکشن کے بعد بننے والی حکومت ایک بار پھر یہی تماشا دہرائے گی۔

اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگلے ایک سال کیلئے سرکاری دفاتر میں عملاً کام کم اور سیاست زیادہ ہوگی۔ افسران کارکردگی دکھانے سے زیادہ سیٹیں بچانے یا زیادہ بہتر عہدوں پر قابض ہونے میں وقت صرف کریں گے۔

3- اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہوگا جب ہمیں کچھ بہت سخت، نامقبول اور ہنگامی قسم کے معاشی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عبوری حکومت سخت فیصلے کر کے اگلے الیکشن میں اپنا نقصان نہیں کرے گی۔

نگران حکومت نیویں نیویں ہو کر اپنے تین ماہ گزارنے کو ترجیح دے گی، بجائے مفت میں بدنامی سمیٹنے کے۔ یوں جس وقت نئی حکومت بنے گی، اس کے لئے مشکلات کئی گنا بڑھ چکی ہوں گی اور اس کے آپشنز نہایت محدود ہو چکے ہوں گے ۔

4- اپریل سے جون تک ہمیں یکے بعد دیگرے تیل ، گیس، گندم اور بیرونی ادائیگیوں کے بحران کا سامنا کرنا ہے۔ بونڈز یا سکوک کے اجرا کے ذریعے زرمبادلہ حاصل کرنے کا آپشن ہمارے پاس نہیں رہا۔ سعودیہ اور چین کو قرضے رول اوور پر قائل کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ چین سے جو 21 ارب ڈالر کی فرمائش ہوئی ہے، میرا نہیں خیال کہ چین کسی چھ، آٹھ ماہ کی حکومت کے ساتھ اتنی بڑی کمٹمنٹ کرے گا۔ جون تک یہ بڑے مسئلے حل نہ ہوئے تو ہمیں ٹیکنکل ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس کا تمام تر سیاسی بوجھ عبوری حکومت کو اٹھانا ہوگا۔

5- بہت غالب امکان تھا کہ یہ سخت معاشی فیصلے خان صاحب کی ٹیم کو کرنا پڑتے تو اگلے الیکشن میں ان کی کامیابی کا رہا سہا امکان بھی ختم ہو جاتا۔ تب تک ان کا سیاسی سرمایہ اتنا کم ہو چکا ہوتا کہ وہ نئی حکومت کے راستے میں زیادہ روڑے اٹکانے کے قابل نہ رہتے۔ یوں ایک نالائق اور نااہل حکومت کو اپنے کئے کی سزا عوام کے ہاتھوں مل جاتی۔ عدم اعتماد خان صاحب کو اگلے الیکشن کیلئے فائٹنگ چانس دے دے گا۔

6- سویلین بالادستی کی تحریک کو شدید نقصان پہنچا ہے اور مزید پہنچے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اس کا سہرا صرف اور صرف ایک شخص کے سر ہوگا اور اس کا نام ہے سپہ سالار۔ اور میاں صاحب نے اگر اس کے پیروں میں سر رکھ کر ہی ووٹ کو عزت دلوانا تھی تو یہ کام ساڑھے تین سال پہلے کر لیتے۔ نہ انہیں جیل میں تکلیف ہوتی اور نہ ہم پر خان صاحب مسلط ہوتے۔

7- کم از کم میری نظروں میں مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کی عزت دو ٹکے کی بھی نہیں رہی۔ انہوں نے انتہائی غلط وقت پر اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا ہے۔ انہوں نے اسی عطار کے لونڈے سے اپنی بواسیر کی دوا لی ہے جس کے ڈنڈے سے خون جاری ہوا تھا۔

"اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے اور فری اینڈ فئیر الیکشن کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے” ایسی بیہودہ اور بچگانہ بات پر ان کے تنخواہ دار سوشل میڈیائی ہی یقین کر سکتے یا وہ جن کے مفادات کاسہ لیسی سے وابستہ ہیں۔ میاں صاحب ایک سال مزید برداشت کرتے تو بہت فائدے میں رہتے۔

صرف خان صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کی خاطر پی ٹی آئی کے لوٹوں کو ٹکٹیں دینے کا وعدہ کر کے، علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے موقع پرستوں سے ہاتھ ملا کر، ق لیگ جیسے ابن الوقتوں کے پیروں میں لوٹ کر، مسلم لیگ نون اپنی اخلاقی برتری اگر کوئی تھی بھی تو کھو بیٹھی ہے۔

نواز شریف کو شرم آنی چاہئے تھی کہ جو کھیل اس کے ساتھ 2018 میں رچایا گیا اور ایک سال کے اندر ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا گیا اب وہی کھیل نواز شریف اسی کھلاڑی سے مل کر عمران کے خلاف کھیل رہا ہے اور ایک بار پھر ایک سال کے اندر اندر ملکی معیشت کا ستیاناس ہو جائے گا۔

خان صاحب کے مبینہ غلط اقتصادی فیصلوں یا پالیسیوں کا ملک کو اتنا نقصان نہیں ہونا تھا جتنا ایک سال کی بے یقینی ، عدم استحکام اور سازشیں کر ڈالیں گی۔

اس گندے کھیل میں جتنے افراد، ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں، سب میری طرف سے چار حرف قبول فرمائیں۔

میری دلی دعا ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد بری طرح ناکام ہو اور متحدہ اپوزیشن باقی کا ایک سال دم دبا کر گزارے۔ ملک اور قوم کیلئے یہی بہتر ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے