کالم

آئین کی بالادستی اور کل کا منظر

مارچ 14, 2022 4 min

آئین کی بالادستی اور کل کا منظر

Reading Time: 4 minutes

” جنرل فیض آرمی چیف بن جائیں گے “
یہ ہے وہ سب سے ” بڑی “ دلیل جو میرے آج دوپہر کو کیے گئے ایک ٹویٹ کے جواب میں ہزاروں لوگوں کی طرف سے دی گئی۔

” اور آرمی چیف بننے کے بعد وہ عمران خان کے ساتھ مل کر 2023 کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے دھاندلی کریں گے اور اگلے پانچ سال کے لیے عمران خان پھر وزیر اعظم بن جائیں گے۔ “

دوسری بڑی وجہ مُلکی معیشت، عوام کی بدحالی اور مہنگائی ہے لہٰذا عوام ہر صورت جلد از جلد عمران خان سے چھُٹکارا چاہتے ہیں اس لیے تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کا درُست قدم ہے اور نہ ہی اس کی ٹائمنگ غلط ہے اور اگر نئی مخلوط حکومت سال ڈیڑھ سال چلے بھی تو آئین کی بالادستی کی تحریک کمزور نہیں ہو گی۔

آئیے ذرا کھُل کر اس پر بات کرتے ہیں۔
دو مُمکنات ہیں:
1. عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد فوری اور مُنصفانہ انتخابات ہو جائیں اور نئی حکومت تازہ مینڈیٹ کے ساتھ مسائل کو پُر اعتماد طریقے سے حل کرے۔

2. عدم اعتماد کامیاب ہو جائے، نئی حکومت ان اسمبلیوں کی مُدت یعنی اگست 2023 تک کام کرے اور اُس کے بعد نگران حکومت نئے انتخابات کروائے اور نئی حکومت آئے۔

اصل مسئلہ انہی دو مُمکنات میں سے ایک کا چُننا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد اگر فوری انتخابات ہو جائیں تو عوامی مسائل کے جلد حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کامیاب عدم اعتماد کے بعد موجودہ اسمبلیوں نے ہی مُدت پُوری کرنی ہے تو کُچھ ایسے زمینی سیاسی حقائق ہیں جن پر ضرور غور ہونا چاہیے۔

اپریل 2022 سے اگست 2023 تک ایک سال پانچ مہینے بنتے ہیں اور اس عرصے میں مُختلف الخیال مخلوط حکومت (جو کہ مُلک کی تقریباً تمام پارٹیوں پر مُشتمل ہو سکتی ہے ماسوائے پی ٹی آئی عمران خان گروپ) کو اپنے اندرونی اختلافات، کھینچا تانی اور منافع بخش عہدوں کی خواہشات کو دبا کر:
1. معیشت کو بہتر کرنا ہو گا
2. مہنگائی کنٹرول کرنی ہوگی
3. بین الاقوامی تنہائی کو کم کرنا
4. بجٹ خسارہ کم کرنا
5. تجارتی خسارہ کم کرنا
6. روپے کی گرتی قدر کو سنبھالنا
7. آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو پُورا کرنا
8. پٹرول، بجلی کی قیمتوں کو کم کرنا
9. دہشت گردی کو کنٹرول کرنا
10. انرجی بُحران کو حل کرنا
11. عدلیہ، میڈیا اور عوامی توقعات پُورا کرنا
12. احتساب، انتخابات اور میڈیا سے مُتعلقہ قانون سازی
13. نئے آرمی چیف کا تقرر یا موجودہ کی سروس میں توسیع
14. ٹیکس ریونیو میں اضافہ
15. نئے بجٹ کی تیاری

نئی حکومت کو عمرانی حکومت کے چھوڑے ہوئے ان تمام مسائل پر نہ صرف قابو پانا ہو گا بلکہ عوام کو مزید ریلیف دے کر یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اُن کی حکومت عمرانی حکومت سے بہتر ہے۔ ایک سال پانچ مہینوں میں یہ اہداف حاصل کرنا تقریباً نا مُمکن ہے۔

فوری انتخابات کی صُورت میں عمرانی حکومت کی ناکامی کا بوجھ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو خُود اُٹھانا پڑے گا لیکن عدم اعتماد کے بعد اگر موجودہ اسمبلیاں اپنی مُدت پُوری کرتی ہیں تو ایک سال پانچ مہینے کا وقت عمران خان کے لیے کافی ہو گا کہ وہ اپنے ووٹ بنک کے سامنے نہ صرف اپنی بُری کارکردگی کے داغوں کو دھو سکیں بلکہ نئی مخلوط حکومت پر پُورے پانچ سال کا گند ڈال دیں جو پہلے ہی سے بھمبل بھُوسے میں پھنسی ہو گی۔ اور وُہ حکومت جس میں عمران خان کے اپنے سابق وُزراء اور جماعتی بیٹھے ہوں گے کس اخلاقی برتری کے ساتھ ناکامیاں عمران کے سر اور کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ سکے گی؟

آئینی اور سویلین بالادستی کے راستے پر آگے بڑھنے کا طریقہ یہی ہے کہ یا تو عمران خان کو پانچ سال پُورے کرنے دئیے جائیں یا عدم اعتماد کی کامیابی کی صُورت میں فوری نئے مُنصفانہ انتخابات کروا کر کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار سونپا جائے۔

لیکن اگر عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اپوزیشن نے اپنی آدھی باری لینے کی خواہش پر قابو نہ پایا تو اگلے ایک سال پانچ مہینے میں یہ نہ تو بڑے مسائل حل کر پائے گی اور نہ ہی اپنے آئینی اور سویلین بالادستی کے خواب کو پُورا کر پائے گی۔

اب آپ تصویر کا دوُسرا رُخ دیکھیں۔ فرض کریں عمران خان پانچ سال پُورے کرتے ہیں تو کیا ہو گا؟ سب سے پہلی دلیل تو یہ ہے کہ یہ حکومت دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہُوئی اس لیے اس کے رہنے کا آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے۔ مان لیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس حکومت کو چار سال تک رہنے کیوں دیا گیا؟ پہلے یہ تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی کیوں نہ ہوئیں؟

جب آپ نے پہلے چار سال اس غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی حکومت کے ساتھ گُزار لیے تو اب آخری سال میں ایسا کیا ہو گیا کہ ایک مُسلسل گرتی ساکھ والی حکومت اور اُس کے سربراہ کو بجائے انتخابات کے ذریعے اپنی شکست کا سامنا کرنے کے، اپوزیشن اُس کو آخری سال میں سیاسی شہید بنانے کا رسک لے رہی ہے؟

کُچھ تو ایسا ہے نا جو اس وقت یہ سب ہو رہا ہے۔ کیا وہ ” کُچھ “ اتنا اہم ہے کہ کئی سالوں کی آئینی اور جمہوری جدوجہد کو اُس کی بھیبٹ چڑھا دیا جائے؟ یہ کڑوا گھُونٹ تو تب بھرا جائے اگر اس بات کی ضمانت ہو اور نظر بھی آئے کہ آئندہ کے لیے آئینی، جمہوری اور سیاسی عمل میں کسی بھی قسم کی بیرونی مُداخلت کا دروازہ، کھڑکی، پیج ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ ورنہ سیاست دانوں کو اور سیاسی جماعتوں کو اس کوئلے کے کاروبار میں سے کیا ملے گا؟

مُلکی حالات بہت خراب ہو چُکے ہیں لیکن سب سے تشویشناک سچائی یہ ہے کہ عوام کی بد اعتمادی اس حد تک بڑھ چُکی ہے کہ آنے والے آرمی چیف کی تعیناتی پر لوگ بجائے احساسِ تحفظ کے، عدم تحفظ کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر جنرل فیض چیف بن گئے تو مُلکی حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور آئینی و انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید شدت سے ہوں گی۔

اس پر سوچیں اور اپنا عمل دخل سیاست، عدالت، صحافت اور تجارت میں ختم کریں اور سیاسی عمل اور ردعمل کو ایک فطری طریقے اور رفتار سے آگے بڑھنے دیں۔ یہی اصل قومی اور عوامی مفاد ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے