کالم

تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن بھاگ جائے گی؟

مارچ 17, 2022 3 min

تحریک عدم اعتماد سے اپوزیشن بھاگ جائے گی؟

Reading Time: 3 minutes

اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے ،لیکن مالکان کے ساتھ چھیڑ خانیاں بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ۔ہمیں لگتا ہے بے بس اور اپنی تبدیلی سے عاجز آئے مالکان کے ساتھ اپوزیشن وہی سلوک کر رہی ہے جو دوسری افغان جنگ میں پسپا ہوتی انگریز فوج کے ساتھ افغانوں نے کیا تھا ،یعنی پسپائی ممکن بنانے کے لیے ہر روز نئی شرائط پیش کی جاتی تھیں ۔

چھ دن گزرے اپوزیشن والوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی اور پورے ساتویں دن قومی حکومت کی ہوائی چھوڑ کر بھاگ گئے ۔

اپنے اپنے مقام پر سارے شرارتیں کر رہے ہیں ۔ن لیگ کے ایک اہم راہنما نے چوہدری پرویز الٰہی کو حکومت سے علیحدگی کی شرط پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امید دلائی موصوف نے خوشی سے جامے نہ سماتے پلانٹڈ انٹرویو کے لیے معروف خاتون اینکر کو انٹرویو میں عمرانی حکومت کے وہ لتے لئے کہ حکومت کو نیپی والی بچہ حکومت قرار دے ڈالا۔وزارت اعلی کی خوشی میں پرویز الٰہی یہ بھی بتا گئے "پشاور” سے فون آتے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ۔اب پشاور میں کون حالیہ ماضی میں تعینات ہوا ہے سب جانتے ہیں۔

انٹرویو کی بازگشت جاری تھی ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی نے یہ بیان دے کر خوشی کا غبارہ پھاڑ دیا”پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔ق لیگ کے راہنما مایوسی اور بے بسی میں پھر سے عمرانی حکومت کی تعریف کرنے لگے اور اپنا رہا سہا بھرم بھی برباد کرا بیٹھے ۔

جس طرح مولانا فضل الرحمن ،شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے پانچ سال کی قومی حکومت کا پانسہ پھینکا ہے یہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری سیاسی ڈویلپمنٹ میں ایک نیا موڑ ہے۔
مالکان بھی جھانسے میں آئے ہیں اور بری طرح آئے ہیں۔لمز میں چیف صاحب نے واضح طور پر ایک سوال کے جواب میں حالات کی زمہ داری "تبدیلی "پر ڈالتے ہوئے یہ کہا "آپ عمران خان کو نہیں جانتے”.

اپوزیشن کا مالکان کا دانہ چگنے کا جھانسا اس قدر کامیاب رہا تبدیلی نے ایک جلسے عام میں مالکان کو "جانور”قرار دے دیا کہ وہی نیوٹرل ہوتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں اپوزیشن والے سارے کے سارے اندر سے ملے ہوئے ہیں اور پورے پورے ملے ہوئے ہیں ۔یہ مالکان کے ساتھ گزشتہ تین سال سے صرف کھیل رہے ہیں ۔نہ شہباز شریف قابو آتے ہیں نہ بلاول بھٹو لیکن چکر دونوں دیتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن بھی صرف عالم دین نہیں بلکہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح مالکان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے جی ایچ کیو کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا بھاگ گئے ۔
اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا بھاگ گئے ۔

بلاول بھٹو لانگ مارچ لے کر سندھ سے چلے اور ڈی چوک میں دھرنا دینے کی بجائے عدم اعتماد کی تحریک کا باجا بجاتے ہوئے بھاگ گئے ۔

اب 27 مارچ کو ڈی چوک میں جمع ہونے کا اعلان کیا ہے لیکن آثار ہیں پہلے کی طرح بھاگ جائیں گے ۔

اپوزیشن راہنما جہاندیدہ ہیں ۔انہیں پتہ ہے ریاست معاشی طور پر نادہندہ ہو چکی ہے ۔اپوزیشن کی پانچ سالہ قومی حکومت کی تجویز اصل میں مالکان کی بے بسی کا امتحان ہے "تبدیلی کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا ہے تو ہماری شرط مانو”
مالکان بند گلی میں ہیں ۔اپوزیشن کی شرط تسلیم کرتے ہیں تو وہ پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کر کے عدلیہ اور مالکان کو کنٹرول کریں گے ۔قومی حکومت چونکہ سب کی ہوگی اس لئے مالکان کسی شہباز شریف ،زرداری یا مولانا فضل الرحمن کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کر سکیں گے ۔

ہم سمجھتے ہیں داؤ پر اپوزیشن کا کچھ نہیں لگا سب کچھ مالکان کا داؤ پر ہے ۔اپوزیشن تحریک عدم اعتماد سے بھاگ گئی تو تبدیلی کو مالکان نے بھگتنا ہے اپوزیشن نے نہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے