کنٹرولڈ جمہوریت کے تجربے ناکام، مفاہمت ضروری
Reading Time: 4 minutesجب ہم یہ بات کرتے تھے کہ موجودہ ہائبریڈ انتظام کا چلنا یا ڈیلیور کرنا ممکن نہیں اور اس کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے،تو اس کی وجہ وہ بنیادی نقطہ جو ہم نے انتظامی امور کی سائنس سے سیکھا یہ ہے کہ جاب ڈسکریپشن کلئیر ہونی چاہیے، یعنی ذمہ داری اور اس ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت جب تک ایک شخصیت میں مجتمع نہیں ہوگی تب تک آپ پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے، پاکستان میں طاقت کے مراکز ایک سے زیادہ ہوتے ہیں اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
اگر آپ اس ہائبریڈ دور کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں آپ کو طاقت کی اس دوئی کے نقصانات کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔
اس ہائبریڈ رجیم کی دو بنیادی پالیسیز جو درحقیقت ایک دوسرے سے جدا نہیں کی جاسکتیں یعنی معیشت اور خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ہی ابہام کا شکار رہی ہیں۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کئی بار یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ معاشی پالیسی ابتدا سے ہی فمبلز کا شکار رہی۔اسد عمر کو ان کے منصب سے ہٹانے کی وجہ ہی یہ بنی کہ ایک تو وہ آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاملات کو حتمی شکل نہ دے پائے بلکہ سود کے شرح اور ملکی کرنسی کی قدر میں ضرورت سے زیادہ اضافہ اور کمی کرکے معاملات کو بے قابو کر گئے اور اس کے نتائج آج تک انفلیشن کی بے قابو شرح کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہی وہ موقع تھا جب اسٹیبلشمنٹ نے یہ اندازہ کرلیا کہ معیشت کو سنبھالنے کی صلاحیت سے عاری آئیٹم گرل حکومت کو مدد کی ضرورت ہے اور یوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی ولادت ہوئی۔
گویا اسٹیبلشمنٹ کو پہلا گندہ پوتڑہ دھونا پڑ گیا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ جو کہ معروف اکانومسٹ ہیں نے ایک پروفیشنل کی طرح معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور تجارتی خسارے کی کمی کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ وہ وقت تھا جب عمران خان نے دامے درمے سخنے ڈاکٹر حفیظ شیخ کی پیراشوٹ لینڈنگ کو ناپسند کیا، یقنی طور پر یہ اسٹیبلشمنٹ کی اپنے اختیار سے تجاوز کی ایک مثال تھی، کیونکہ ناکامی کا سارا بوجھ آئٹم گرل سول حکومت کو جھیلنا تھااور بالاخر انہوں نے حفیظ شیخ کو چلتا کیا۔
حال ہی میں ہائبریڈ حکومت کے ہر دو فریقین نے ناکامی کا باعث ایک دوسرے کو ٹھہرایا تو یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں کی بات میں جزوی سچائی پائی جاتی ہے۔
عمران خان بنیادی طور پر ایک سیاستدان کا مزاج نہیں رکھتے اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے ان کے سیاسی اتالیق کا کردار بھی نبھانا شروع کردیا، اسٹیبلشمنٹ کو شروع سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ اپوزیشن قطعی طور پر کمزور نہیں ہے اور ارتکاز قوت کرنا (یعنی اپنے تمام انڈے عمران کی ٹوکری میں رکھنا) ان کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے ابتدا سے ہی دس سال کا پروگرام بنایا تھا اور عمران خان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر وہ سیاسی معاملات میں ان کی مرضی کو شامل کر لیں تو وہ یہ ممکن بنائیں گے کہ دس سال اطمینان سے مکمل ہوسکیں۔
اسی لیے انہوں نے درپردہ آصف علی زرداری اور نواز شریف سے معاملات طے کئے اور نواز شریف کو سیف پیسیج دیا اور آصف علی زرداری کے مقدمات کو آہستہ کیا۔
اقتدار کے ایوان میں بیٹھے ہوئے عمران خان بہرحال اس پر مطمئن نہ تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ اس قسم کہ رعایت ان کے بیانیے سے لگا نہیں کھاتی، عمران خان لاتعداد غیر حقیقی دعووں اور وعدوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور معاملات ان کے قابو سے باہر تھے، اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کی بنا پر ایک بار پھر انہوں نے اپنی ناکامی کا سبب داخل میں تلاش کرنے کی بجائے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانا شروع کر دیا۔
ملنگوں کو چھیڑنے کی اس پالیسی پر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے لئے غیر ضروری مشکلات کھڑی کرنے سے پرہیز کریں، جسے عمران خان نے بعد ازاں اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کے استعارے کے طور پر بیان کیا۔
عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی اس بات کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں کہ سیاسی درجہ حرارت کم کئے بنا اور انتقامی جذبے کو تج کئے بنا سیاسی معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
گویا دونوں فریقین کو اس معاملے میں بھی ایک دوسرے سے شکایات ہیں اور اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بہرحال عوام کو جوابدہ نہیں جبکہ عمران خان کو ایک نہ ایک دن عوام کے سامنے پیش ہونا تھا۔
اس وقت جو سیاسی صورتحال اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کو درپیش ہے وہ منطقی نتیجہ ہے اختیارات کی اسی دوئی کا جو اس ہائبریڈ نظام حکومت کی پیدائش کے وقت سے ہی حل طلب ہیں۔
پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے متعدد تجربات کئے گئے ہیں اور وہ تمام کے تمام ناکام ہوئے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اختیارات اور ذمہ داری یعنی پاور اینڈ رسپونسیبلیٹی کا تعین نہیں کیا جاسکا۔
ضیا الحق جونیجو،پرویز مشرف جمالی اور قمر عمران اس کی درخشندہ مثالیں ہیں۔
میرا یہ خیال ہے کہ اب اس بات کا تعین کرنا آسان ہونا چاہیے کہ اس قسم کے مزید تجربات کرنا بہت سارے مسائل کو جنم دے گا۔
پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بنیادی اصولوں پر سیاسی ہم آہنگی کی ہے اور بظاہر عمران خان کے علاوہ باقی فریقین اس معاملے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ رہی ہیں۔
عمران خان کو سنگل آوُٹ کرنے کی پالیسی بھی بری طرح پٹنا بھی ایک ہونی شدنی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ پی پی، نون اور پی ٹی آئی کے شدھ سپورٹرز اور اندھے مقلدین کے لئے یہ سب ہضم کرنا آسان نہيں لیکن اگر پاکستان کو بطور ایک کامیاب ریاست آگے لے جانا ہے تو اس لارجر ری کنسی لئیشن یعنی مفاہمت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا۔