عمران خان نے حمزہ شہباز کو دوبارہ انتخاب تک وزیر اعلی تسلیم کر لیا
Reading Time: 5 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعلی پنجاب کا انتخاب 22 جولائی کو کروانے کا حکم دیدیا۔حمزہ شہباز تب تک قائم مقام وزیراعلی رہیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے چناؤ سےمتعلق کیس کی سماعت میں وقفے کے بعد چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے پوچھا کہ عمران خان کا کیا موقف ہے؟
بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان نے حمزہ شہباز کو سترہ جولائی تک قائم مقام وزیر اعلی تسلیم کر لیا ہے۔ شفاف ضمنی انتخابات اور مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن تک حمزہ بطور وزیراعلی قبول ہیں۔
وزیراعلی کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہو گا۔پرویز الہی اور حمزہ شہباز کا اتفاق ہو گیا۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سیا ستدان اپنے مسئلے خود حل کریں۔اگر ہمارے پاس آئینگے تو پھر ہماری بات ماننا پڑے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہم آرڈر پاس کرینگے۔ حمزہ کیلئے قائمقام کا لفظ استعمال نہیں کرینگے،ایسے الفاظ استعمال کرینگے جو دونوں فریقین کو قابل قبول ہونگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ججز جواب نہیں دے سکتے،تین ماہ کا بحران ہم نے تین سیشنز میں حل کر دیا ہے۔ عدالت پر باتیں کرنا بہت آسان ہے، توہین عدالت کا اختیار استعمال کریں تو آپ کی روز یہاں حاضری لگے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو دو آپشنز دے دیئے تھے۔ عدالت نے کہا کہ یا دو دن میں دوبارہ انتخاب پر مان جائیں یا پھر حمزہ شہباز 17 جولائی تک وزیراعلیٰ تسلیم کرلیں۔
عدالتی حکم پر حمزہ شہباز اور پرویز الٰہی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت عظمیٰ اسلام آباد میں جاری سماعت میں پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق تحریک انصاف کی اپیل پر سماعت کی، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب آج نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے حمزہ شہباز سے استفسار کیا کہ آپ کا کیا موقف ہے؟
جمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ اگر سترہ جولائی کو الیکشن ہوتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کا کہنا تھا کہ اگر سترہ جولائی تک حمزہ شہباز وزیراعلی رہتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن غیر قانونی گرفتاریاں نہیں ہونی چاہئیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے اعتراض اٹھایا۔ جسٹس اعجازالااحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور آپ کے امیدوار ہی ایک صفحے پر نہیں ہیں،عدالت کیا کرے؟دو دن میں انتخاب یا سترہ جولائی تک حمزہ شہباز وزیراعلی،یہی دو آپشن ہیں۔
اس دوران تحریک انصاف کے رہنما روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ ہم نے آپس میں طے کیا ہے کہ ہاؤس مکمل ہونے دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ محمودالرشید کے بیان کے بعد لیڈر شپ سے مشاورت ضروری ہو گئی ہے،کچھ وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو مشاورت کر کے آنا چاہئے تھا تاہم سماعت میں پھر وقفہ ہو گیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے خلاف تحریک انصاف کی اپیل پر سماعت شروع ہے۔ سماعت میں نصف گھنٹے کا وقفہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کی عمر عطا بندیا لی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کررہا ہے بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف کی طرف سے بابر اعوان کے دلائل شروع کئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امتیاز صاحب آپ کس کی طرف سے ہیں؟ ہم صرف ایک ہی وکیل کو سنیں گے چیف جسٹس
بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں آٹھ درخواستیں کی گئیں بابر اعوان 16 اپریل کے حمزہ شہباز کے وزیرِ اعلیٰ بننے کے عمل کو چیلنج کیا گیا۔
انتخابات کے دن ہجوم تھا پولیس بھی پنجاب اسمبلی میں داخل ہوئی۔ 371 کل پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تعداد ہے۔ وزیرِ اعلیٰ بننے کیلئے 186 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سادہ سی بات ہے۔
195 ووٹس میں سے 25 اراکین ڈی سیٹ ہوگئے
25 اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد 186 ووٹ نہیں رہےہائیکورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 130 چار کے تحت ری پول کرایا جائے۔
بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 130 کی شق چار کی تشریح کرنی پڑے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ 26 گھنٹے کا وقت کم ہے۔ ہم آپ کی دلیل سے متفق نہیں ہیں کہ اراکین موجود نہیں۔آپ صرف وقت پر بات کریں۔ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں
بابر اعوان کا کہنا تھاکہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو ووٹنگ میں شامل ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔تحریک انصاف کو یکساں موقع ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہوتے ہوئے یکساں موقع نہیں مل سکتا۔ہم کن اصولوں کی روشنی میں وقت میں اضافہ کریں ہمیں بتائیں کیسے ووٹنگ کیلئے وقت بڑھائیں؟
بابر اعوان نےُکہا کہ ہمیں سات دن مزید چاہئیں۔ ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ وقت زیادہ ملے تو ہم لوگ بھی زیادہ لیکر آسکیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر وزیر اعلی پنجاب نہیں ہوگا تو پھر صوبہ کون چلائیگا؟
بابر اعوان نے دلیل دی کہ اگر پنجاب میں کوئی حکومت چلانے والا نہیں ہوگا تو پھر کون ہوگا سابق وزیر اعلی عثمان بزدار کو بحال کریں نگران وزیر اعلی بنا دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ اس لئے دیا کہ صوبہ چلتا رہے۔ سابق وزیر اعلی کو بحال کرنے کا تصور بھی نہ کریں اکثریت ثابت کرنا پڑتی ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر موجودہ وزیراعلیٰ نہیں تو پھر کون صوبے کے امور چلائے گا؟تحریک انصاف کے وکلاء تیاری کرکے آئیں،آدھا گھنٹہ دے رہے ہیں، تحریک انصاف کے وکلاء تیاری کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے سات دنوں کا وقت مانگ رہے ہیں،ان سات دنوں میں صوبہ پنجاب کے امور کون چلائے گا؟آپ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب کو امور چلانے کی اجازت کے حق میں نہیں ہیں،
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا پنجاب میں تحریک انصاف کیساتھ اکثریت موجود ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ صوبے میں اس وقت کسی کی بھی اکثریت نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آئین میں گورنر کے ذریعے صوبہ چلایا جاسکتا؟
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہبصوبہ گورنر کے ذریعے آرٹیکل 105 کے تحت روزانہ کی بنیاد پر امور چلاسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی اپیل آج پہلی دفعہ سنی ہے۔ ساری صورتحال ہمارے فیصلے کے بعد پیدا ہوئی۔ اب موجودہ تعداد میں جس کی اکثریت ہو گی وہ جیت جائے گا۔ اگر فیصلہ پہلے آجاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا گورنر جو صوبے کے امور چلانے کا حکم دے سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جب عوام کو مواقع ملیں گے تو اسی سے جمہوریت کو فروغ ملے گا۔
1988 میں صدر اچانک انتقال کرگئے۔ ریاستی امور گورنر نے سنبھال لئے۔ سپریم کورٹ نے کہا حکومتی امور چلانے کا گورنر مجاز نہیں ہوسکتا۔ اگر موجودہ وزیر اعلی کو تسلیم نہیں کررہے تو پھر صوبے کے امور کون چلائے گا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ یہ طے ہے کہ آج شام چار بجے اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز اور سپیکر پرویز الہی کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں پھر وقفہ کر دیا۔
کیس کی مکمل سماعت کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔
�