تعویز بنا کر پہنوں اسے
Reading Time: 4 minutesید بیضا نے لکھا کہ گلزار اوور ریٹڈ ہے۔
میں نے بہت سوچا لیکن مجھے لگا کہ یدبیضا اور میرا دماغ ایک طرح سے نہیں سوچتے یا میں دل سے سوچتا ہوں اور یدبیضا دماغ سے۔
گلزار کو بطور سکرپٹ رائٹر دیکھنا ہے, بطور شاعر یا ڈائریکٹر؟
ہوسکتا ہے کہ اس کی نثر بہت اچھی نہ ہو لیکن
گلزار اگر ایک شعر بھی نہ کہتا بس یہ نظم لکھ دیتا تو کافی تھا:
چھل رہا ہے میرا کندھا اے خدا وند۔۔۔۔۔۔۔۔!
میرا دایاں کندھا٬
اور یہ چیڑ کی لکڑی کی صلیب،
اتنی وزنی ہے کے کندھا نہیں بدلا جاتا٬
اک ذرا ہاتھ لگا کر اسے اوپر کر دے٬
پائوں جمتے نہیں کہسار پہ اب چڑھتے ہوئے٬
ننگے پیروں میں بہت چبھتی ہیں کاٹے ہوئے کیکر کی جڑیں٬
گو کئی بار چڑھا ہوں اسی کہسار پر میں٬
ترے پیغام ترے نام کی تلقین کے لیے٬
اور اکیلے میں ترے ساتھ کئی راتیں گذاری ہیں یہیں٬
گڑگڑایا ہوں٬ تجھے پوجا ہے، باتیں کی ہیں٬
تو نے پھونکوں سے ہٹائے ہیں پہاڑوں کے پہاڑ٬
میرے تلوے میں لڑھکتا ہے روڑا بھی ہٹا دے٬
ساتھ چلتے ہوئے یہ رومی سپاہی تو مجھے ہانک رہے ہیں٬
پل کو رکتا ہوں تو ان کی ٹھوکر!
سیدھی ہڈی پہ جو لگتی ہے تو اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ڈرتا ہوں چیخ نکل جائے نہ ہونٹوں سے کہیں٬
چیخ نکلی گی تو یہ لوگ ترے٬
تیرے بھیجے ہوئے آدم سارے٬
مجھ کو دیکھیں گے حقارت بھری نظروں سے٬
اور سمجھیں گے کہ میں جھوٹا تھا٬
کیسے سہمے ہوئے سب ڈھونڈ رہے ہیں مرے پیچھے تجھ کو٬
میں ترا بیٹا ہوں٬ یہ ان سے کہا تھا میں نے٬
ان کو امید ہے تو آئے گا اور معجزہ ہوگا کوئی٬
تو بتا آئے گا؟
کب آئے گا؟
معجزے دکھائے میں نے ترے خاطر٬
بس ترے نام کی خاطر٬
اپنے بیٹے کے لیے تو بھی کوئی معجزہ کر!
کوئی پتہ نہیں ہلتا تری مرضی کے بنا؟
کوئی چڑیا نہیں گرتی جو ترا حکم نہ ہو؟
مرے ماتھے پہ لگی تاج میں دیکھ٬
ایک مکھی ہے٬
بڑی دیر سے کانٹوں میں پھنسی ہے!
بھنبھناتی ہے مرے زخموں پہ٬
اپنی انگلی سے اٹھا کر اسے آزاد ہی کر!
مرے ماتھے سے ٹپکتی ہوئی خوں کی بوندیں٬
اب تو آنکھوں پہ چلی آئی ہیں٬
تو بتا آنکھ میں جھپکوں کیسے؟
تو مجھے دیکھ رہا ہے یا نہیں؟
بول بتا کوئی اشارہ تو دکھا؟
یا تجھے مرے سوا اور بہت کام ہیں مصروف ہے تو!
مری برداشت اگر ٹوٹ گئی؟
گر پڑے گی یہاں تری بھی انا٬
اور یہ چیڑ کی لکڑی کی صلیب٬
امتحاں تیرا ہے میرا تو نہیں؟
سر پہ لٹکتے ہوئے شعلے کو ذرا دور تو کر٬
تو نے مرضی سے جلایا ہے بجھایا ہے٬ یہ سورج اکثر٬
آج بس میرے لیے تھوڑا سا مدھم کر دے٬
میری آنکھوں میں اندھیرا سا اتر آیا ہے٬
ماس کا لوتھڑا کندھے سے لٹکنے لگا ہے اب تو٬
اور ھڈی سے رگڑتی ہے یہ لکڑی تو صدا آتی ہے٬
میرے اعمال تو تھے تیرے لیے٬
اور اعمال اگر میرے نہیں٬
پھر یہ سولی بھی تو میری نہیں تیری ہے٬
اسے تو ہی اٹھا؟
تھوڑا سا فاصلہ باقی ہے٬
جہاں تجھ کو یہ مصلوب کریں گے سارے٬
تو وہاں آئے گا کیا؟
مجھ کو امید نہیں٬
نسل آدم سے کوئی بدلا لیا ہے تو نے؟
بادشاہوں کی طرح تجھ کو بھی عادت تو نہیں ایسے تماشوں کی کہیں؟
میں تیری رمز کو سمجھا ہی نہیں ہوں شاید٬
سر کوہسار وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جب میں پہنچوں گا تو کیا ہوگا٬ خبر ہے تجھ کو؟
مجھ کو اس چیڑ کی شہتیر پہ میخوں سے کسا جائے گا٬
میرے ماں بھی٬
تو جسے جانتا ہے٬
لوگوں کی بھیڑ کے پیچھے کہیں بیٹھی ہوگی!
یہ وہی لوگ ہیں جن کو میں نے٬
معجزوں کی ترے تفصیل سنائی تھی کبھی٬
جن کو سن کر وہ کبھی
تجھ پر ایمان بھی لاتے رہے سہمے سہمے٬
میں نے تو چاہا تھا وہ تری محبت میں جئیں٬
ان کی آنکھیں تھی مگر تری کوئی شکل نہیں تھی٬
کان تھے سب کے٬ مگر تو نے کبھی بات نہ کی٬
میں نے تمثیلیں گھڑیں٬
تری آواز سنانے کے لیے
اور تری شکل دکھانے کے لیے٬
ورنہ کیسے انہیں سمجھاتا کہ تو کیسا ہے!
اب بھی مہلت ہے کہ تو اپنی انا ہی کے لیے٬
معجزہ کرلے کوئی!
ورنہ تمثیل ہی رہ جائے گا تو؟
بعد وقتوں میں پھر٬
صرف تمثیلیوں کی لوگوں میں پرستش ہوگی٬
اور تمثیلوں کی تصدیق کی خاطر٬
پھر مرے نام خوں ہوگا٬
جوترے نام سے اس بار ہوا۔
اب دیکھیے کیا کسی اور شاعر کو مذہبی عقائد اور تاریخ کی اتنی سمجھ ہوگی؟
ملاحظہ کیجئیے ایک اور نظم:
برا لگا تو ہوگا اے خدا تجھے
دعا میں جب
جمائی لے رہا تھا میں !
دعا کے اس عمل سے تھک گیا ہوں میں
میں جب سے دیکھ سن رہا ہوں
تب سے یاد ہے مجھے
خدا جلا بجھا رہا ہے رات دن
خدا کے ہاتھ میں سب برا بھلا
دعا کرو
عجیب سا عمل ہے یہ
یہ ایک فرضی گفتگو
اور ایک طرفہ — ایک ایسے شخص سے
خیال جس کی شکل ہے
خیال ہی ثبوت ہے !
ذرا کسی اور کے ہاں
سرمے سے لکھے تیرے وعدے
آنکھوں کی زبانی آتے ہیں۔
میرے رومالوں پہ لب تیرے
باندھ کے نشانی جاتے ہیں۔
جیسی روایت تو دکھا دیں۔
یا
تیری باتوں میں قوام کی خوشبو ہے
تیرا آنا بھی گرمیوں کی لو ہے
یا
جینے کے لیے سوچا بھی نہ تھا درد سنبھالنے ہوں گے
یا
ذرا کوئی ایڑی سے دھوپ تو اڑا کر دکھائے
اتنی امیجری, اتنی ڈیپتھ کس کے ہاں پائی جاتی ہے؟
تعویز بنا کر پہنوں اسے آیت کی طرح مل جائے کہیں
جیسی بات اور کسی نے کی ہو ہمیں بتائیں۔
ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔
سوچا اپنا اختلاف رائے ریکارڈ کروا دوں۔