صدر، وزیراعظم مستعفی، سری لنکا کے معاشی بحران کے عوامل کیا ہیں؟
Reading Time: 3 minutesسری لنکا کے وزیراعظم نے گزشتہ ماہ کے آخر میں کہا تھا کہ جزیر نما ملک کی قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت تباہ ہو گئی اور ملکی خزانے میں خوراک اور ایندھن کی ادائیگی کے لیے رقم ختم ہو چکی ہے۔
ضروریات کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے نقد رقم کی کمی اور پہلے سے ہی اپنے قرضے میں نادہندہ، یہ پڑوسی ممالک بھارت اور چین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد طلب کر رہا ہے۔
وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے، جنہوں نے مئی میں عہدہ سنبھالا تھا، اور وہ ایسے کام پر زور دے رہے تھے جس سے ایک ایسی معیشت کو تبدیل کیا جائے جو اُن کے مطابق چٹان کی طرح کھائی میں لڑھک رہی ہے۔
سنیچر کو وہ اور صدر گوٹابایا راجا پاکسے دونوں مظاہرین کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے دوران مستعفی ہونے پر راضی ہو گئے۔
مظاہرین نے ان کی دونوں رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا اور ان میں سے ایک کو آگ لگا دی۔
مہنگائی اور قلت کا شکار سری لنکا کے شہری ایک وقت کا کھانا چھوڑنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ محدود مقدار میں ایندھن خریدنے کی کوشش میں گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسے ملک کے لیے نہایت تلخ تجربہ ہے جس کی معیشت تازہ ترین بحران کے شدید ہونے تک ایک بڑھتے ہوئے اور پرسکون متوسط طبقے کے ساتھ تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔
حکومت 51 بلین ڈالر کی مقروض ہے اور وہ اپنے قرضوں کی واپسی تو درکنار اس پر سود کی ادائیگی کرنے سے بھی قاصر ہے۔
سیاحت جو کہ اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن ہے، وبائی امراض اور 2019 میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے۔
سری لنکن کرنسی کی قدر 80 فیصد تک گر گئی ہے، جس سے درآمدات مزید مہنگی ہو گئیں جبکہ افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے جو پہلے ہی قابو سے باہر ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اخراجات میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔
نتیجہ یہ ہے کہ ایک ملک دیوالیہ ہو کر تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کے پاس پٹرول، دودھ، کھانا پکانے کی گیس اور ٹوائلٹ پیپر درآمد کرنے کے لیے شاید ہی کوئی رقم ہو۔
سیاسی بدعنوانی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف ملک کی دولت کو ضائع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، بلکہ یہ سری لنکا کے لیے کسی بھی مالیاتی بچاؤ کو بھی پیچیدہ بناتا ہے۔
واشنگٹن میں سنٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے پالیسی فیلو اور ماہر اقتصادیات انیت مکھرجی نے کہا کہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی طرف سے کوئی بھی امداد سخت شرائط کے ساتھ آنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد کا غلط استعمال نہ ہو۔
مکھرجی نے کہا کہ سری لنکا دنیا کی سب سے مصروف ترین شپنگ لین میں سے ایک ہے، اس لیے اس طرح کے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ملک کو دیوالیہ ہونے دینا کوئی آپشن نہیں۔
سری لنکا میں عام طور پر کھانے کی کمی نہیں ہوتی، لیکن اب لوگ بھوکے سو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 میں سے نو خاندان ایک وقت کا کھانا چھوڑ رہے ہیں یا پھر اپنے کھانے میں کوتاہی کر رہے ہیں، جب کہ 30 لاکھ شہری ہنگامی انسانی امداد حاصل کر رہے ہیں۔
ڈاکٹروں نے سرجیکل سامان اور ادویات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔
بیرون ملک کام کی تلاش میں جانے کے لیے پاسپورٹ کے حصول کی کوشش کرنے والے سری لنکن شہریوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کو تین ماہ کی اضافی چھٹی دی ہے تاکہ وہ اپنی خوراک خود اگانے کو وقت دے سکیں۔
مختصر یہ کہ لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور حالات کو بہتر کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ بحران ملکی عوامل جیسے کہ برسوں کی بدانتظامی اور بدعنوانی سے پیدا ہوا ہے۔
عوام کا زیادہ تر غصہ صدر راجا پاکسے اور ان کے بھائی سابق وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے پر مرکوز ہے۔
مؤخر الذکر نے ہفتوں کے حکومت مخالف مظاہروں کے پرتشدد رخ اختیار کرنے کی بعد مئی میں استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ سری لنکا کے پاس قابل استعمال غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں صرف 25 ملین ڈالر ہیں۔
دریں اثناء سری لنکا کا روپیہ قدر میں کمزور ہو کر تقریباً 360 امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے درآمدات کی لاگت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
سری لنکا نے 2026 تک ادا کیے جانے والے 25 بلین ڈالر میں سے اس سال تقریباً 7 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی روک دی ہے۔