چیف جسٹس عمر عطا اور وکیل عرفان قادر کی تلخی کس بات پر ہوئی؟
Reading Time: 2 minutesپنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دلائل کے لیے وکیل عرفان قادر کو روسٹرم پر بلایا۔
عرفان قادر نے کہا کہ وہ عدالت کی معاونت کے لیے موجود ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالت درست نتیجے پر پہنچے جو وسیع قومی مفاد میں ہو۔
ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ
اُن کی پہلی درخواست یہ ہے کہ
ایک ہی تین رُکنی بینچ کے ایک جیسے مقدمات سننے سے عوام میں جو تاثر ابھر رہا ہے ضروری ہے کہ اس کے رد کے لیے اس مقدمے میں فُل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے جو قانونی سوال پوچھنا ہے وہ لکھ کر دیدے تاکہ سب کو سمجھنے اور جواب دینے میں آسانی ہو۔
عرفان قادر نے کہا کہ اُن کے لیے کافی کنفیوژن ہے اور باقی سب لوگ بھی وضاحت سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ اگر پوری عدالت مل کر سوال فریم کر لے تو آسانی ہوگی۔
اس دوران بینچ کی جانب سے عرفان قادر کو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پڑھنے کے لیے کہا گیا اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل سے کہا کہ وہ متعلقہ حصہ پڑھ لیں جس میں عدالتی فیصلے پر انحصار کیا گیا۔
تاہم عرفان قادر اپنی بات کرتے رہے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سخت لہجے میں کہا کہ جب بینچ کے رُکن بول رہے ہوں تو وہ خاموش رہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ اگر اُنہوں نے اب عدالتی کارروائی میں مداخلت کی تو اُن کو واپس کرسی پر بٹھا دیا جائے گا۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ یہ عدالت کی مرضی ہے کہ وہ کسی کو بٹھا دے مگر آئین کے آرٹیکل 14 میں احترامِ انسان کا لکھا گیا ہے احترامِ جج کا نہیں۔
عدالت نے عرفان قادر کو 17 مئی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تیسرا پیراگراف پڑھنے کے لیے کہا۔
عرفان قادر نے کہا کہ وہ تیسرا پیراگراف بھی پڑھیں گے مگر پہلے ابتدائی دو پیراگراف پڑھیں گے کیونکہ وہ بھی عدالت کے فیصلے میں ہی شامل ہیں۔
پیرا گراف پڑھنے کے بعد وکیل عرفان قادر نے کہا کہ خدارا، یہ مت سمجھیے کہ یہاں لڑنے کے لیے آئے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ جناب ناراض ہو گئے تھے، سب یہاں معاملے پر اپنی بات کرنے اور حل کے لیے آئے ہیں۔