ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کیا دلائل دیے؟
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں وزیراعلی پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت کے وکیل صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ پارٹی سربراہ کا خط ووٹنگ کے وقت ملا تو بات ختم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ثابت کریں گے کہ پارٹی ارکان کو پہلے ہی فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر دلائل دیں۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کیس میں قانونی سوال پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کا ہے، سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں پارٹی سربراہ کی ہدایت کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہے،پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہیے،پارلیمانی پارٹی کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ عدالت کو تمام خطوط بھی پیش کرینگے جو ارکان کو لکھے گئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مقدمے کے حقائق کی طرف جانے کی ضرورت نہیں، اس وقت کیس کے میرٹ کو نہیں دیکھ رہے۔ اس وقت عدالت کے سامنے جو قانونی سوال ہے وہ زیربحث ہے اس تک محدود رہیں۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ڈپٹی سپیکر کو چودھری شجاعت کے خط کا پوچھا تھا اس لیے بتانا پڑا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بینچ نے اپنے سمجھنے کے لیے پارٹی سربراہ کے خط کے بارے میں پوچھا تھا۔
چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ فریق بننے کی درخواست چوہدری شجاعت اور ق لیگ کی بطور پارٹی ہے۔ فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کررہے ہیں۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کے علاوہ کسی اور کو بڑا بنا دیا جائے تو مسائل پیدا ہوں گے، اگر سینیٹ میں کسی جماعت کا ایک ہی سینیٹر ہو تو وہ کہے گا میں خود پارلیمانی پارٹی ہوں۔
چوہدری شجاعت کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ فیصلہ کرتا کہ کس کو ووٹ دینا ہے، کئی جماعتیں کہتی ہیں کاغذوں میں نام کسی کا بھی ہو ہمارا قائد فلاں لیڈر ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو۔ فل کورٹ تشکیل دینی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آٹھ ججز اس وقت موجود ہیں کیا نو ہونے چاہئیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ضروری نہیں کہ 17 ججز سے ہی فل کورٹ بنے، چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ کتنے ججز بنچ میں شامل کرنے ہیں۔
چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ فل کورٹ میں ججز زیادہ ہوں گے تو ہر جج کی رائے سامنے آئے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی مسئلہ جلد حل ہو تاکہ حکومت کام کر سکے.
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ماضی میں بھی ماڈل ٹاؤن کے شریفوں اور گجرات کے چودھری حکومت کرتے رہے، اگر دوبارہ کر لیں گے تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹے گا مگر عدالت کا تاثر خراب ہوا تو یہ تباہ کُن ہوگا۔