کالم

ججز تقرر، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی مکمل ریکارڈنگ کا خلاصہ

جولائی 30, 2022 5 min

ججز تقرر، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی مکمل ریکارڈنگ کا خلاصہ

Reading Time: 5 minutes

اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے دو گھنٹے 25 منٹ 29 سیکنڈ کے اجلاس کی کارروائی کی ریکارڈنگ سنی۔

اجلاس کے آغاز میں اعجاز الحسن نے کمیشن کے چیئرمین عمر عطا بندیال کے قصیدے پڑھے اور پھر بغیر کسی شماریاتی تجزیے آمنت و صدقت کہتے ہوئے “جناب نے جو کہا بس وہی حق ہے” اپنی ماہرانہ رائے پیش کی۔

چیف جسٹس کے ٹرائیکا کے سوا تمام ہی ججز نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرر کے لیے کسی لاجک، کسی منطق اور کسی اصول کو وضع کرنے پر زور دیا۔

کہا گیا کہ سینیارٹی سب سے پہلی شرط ہے ججز کو منتخب کرنے کی۔ سینیارٹی کو اگر بالائے طاق رکھنا ہو تو اس کے لیے بہت مضبوط توجیہہ ہونی چاہئے۔
اس ضمن میں سوائے چیئرمین اور اعجاز الحسن کے تمام ہی ممبران کی متفقہ رائے یہی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس پھلپوٹو کی سینیارٹی میں نویں نمبر پر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں جج کی نامزدگی پھلپوٹو کے ریکارڈ سے بالکل برعکس ہے۔

کمیشن کے چیئرمین جسٹس بندیال آخر تک بھی کوئی دلیل نہ دے سکے کہ ایسے بندے کو نویں نمبر پر ہونے کے باوجود کیوں نامزد کیا گیا۔

سب سے دلچسپ اور غالبا طویل تبصرہ جسٹس سردار طارق مسعود نے کیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے پھلپوٹو سمیت باقی نامزد ججز کو لے کر ان کے فیصلوں کا جو qualitative اور quantitative تجزیہ کیا وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔
سینیئر ججز، چیئرمین عطا بندیال جنہیں بائی پاس کرنا چاہ رہے تھے، کے تفصیلی فیصلے لکھنے کی شرح کئی نامزد کردہ پسندیدہ ججوں سے کہیں زیادہ تھی۔

مزیدبرآں، من پسند نامزد کردہ ججز کے فیصلوں کی سپریم کورٹ میں مسترد ہونے کی شرح بھی حیران کن حد تک سینیئر ججز سے کہیں زیادہ تھی۔

جسٹس پھلپوٹو کے معاملے خاص کر فوجداری مقدمات میں دماغ استعمال کرنے کی بجائے میڈیکل ریکارڈ پر انحصار کرنا چیئرمین کے ٹرائیکا کے علاوہ تمام ممبران نے نہ صرف نوٹ کیا بلکہ ریکارڈ کا حصہ بنایا۔

مختصراً ایک فقرے میں کہا جائے تو جس طرح جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس بندیال کے من پسند ججز کی اہلیت کو صفر ثابت کیا، وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ حکومت کی جانب سے “نرم و ملائم” ۔۔۔ فراہم کرنے کی ایک بار پھر نظیر بن کر سامنے آئے، گو میٹھی میٹھی بولی میں انہوں نے بھی مخالفت ہی کی۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس عہدے پر کسی vocal بندے کو ہونا چاہیے جو جسٹس سردار طارق مسعود کی طرح کھل کر تنقید کرنے کا اہل ہو۔

پاکستان بار کونسل کے نمائندے ایڈووکیٹ اختر حسین کا ارتکاز نامزد کردہ ججز کے رویے پر رہا۔ اس ضمن میں انہوں نے بھی نامزد کردہ ججز سے کہیں بہتر سینیئر ججز کی نامزدگی پر زور دیا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بھی نہایت ہی نستعلیق طریقے سے چیئرمین کے نامزد ججز کو مسترد کرتے ہوئے ججز کی تقرری کا طریقہ کار وضع کرنے پر زور دیا۔ ایک بار پھر، حکومتی نرم رویے کی ترجمانی کرتے ہوئے بھیگی بلی بنے رہ کر بات کرنے کی مثال قائم کی۔
کاش اشتر اوصاف کی جگہ عرفان قادر اس اجلاس میں بات کرتے تو ایک الگ ہی ماحول ہونا تھا خیر حکومت کی مرضی، ہمیں کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے سوا تمام ہی مخالف ممبران نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی نامزدگی نہ ہونے پر اختلاف کا اظہار کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ اس وقت تمام ہائی کورٹس کے ججز میں سینیارٹی کے لحاظ سے سرفہرست ججز میں آتے ہیں۔
ممبران نے اسلام آباد ہوئی کورٹ کو نظر انداز کرنے کے خلاف دلائل بھی دیے۔

جسٹس فائز عیسی کو شروع میں بولنے کا موقع دیا گیا تو انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے پچھلے اجلاسوں میں ہونے والی کاروائی کی غلط تحریری ریکارڈنگ سے بات کا آغاز کیا اور کہا کہ ماضی میں غلط منٹس آف میٹنگ کی ریکارڈنگ کو وہ آج کے اجلاس کا باقاعدہ حصہ بنانا چاہتے ہیں۔

نامزد ججز پر اپنی رائے دینے کے معاملے پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ چونکہ انہیں متعلقہ ریکارڈ کو پڑھنے کی مہلت نہیں دی گئی لہذا اس جانب ان کی معلومات کا مآخذ یہی اجلاس ہے۔ چونکہ اس اجلاس میں ابھی تک تمام ممبران بشمول چیئرمین نے اپنی رائے پیش نہیں کی لہذا وہ اس معاملے پر اپنی رائے سب سے آخر میں دینا چاہیں گے۔ اس بار پر چیئرمین تلملائے کہ نہیں سب سے آخر میں تو وہی بات کریں گے تاہم فائز عیسی نے اختلاف کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے آخر میں نامزد کردہ ججز کے بارے میں توجیہہ دینے کی کوشش کی جس کے تحت انہوں نے سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کی صوبائی شرح برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ پھلپوٹو کو کس بنیاد پر نامزد کیا گیا یا سینئیر ججز کو کیوں نظر انداز کیا گیا اس بابت وہ کوئی بھی واضح بات کرنے سے گریزاں رہے۔ چیئرمین نے ججز کے ٹیمپرامئنٹ اور ان کی فوجداری یا آئینی یا سول معاملات میں تجربے کو بنیاد بنانے کی بات بھی کی۔

اور اس بات کو قاضی فائز عیسی نے دلائل کے ساتھ رد کیا۔ فائز عیسی کے بقول وہ سردار طارق مسعود کے ساتھ سول معاملات کے بینچ پر بیٹھ چکے ہیں اور باوجود اس حقیقت کے کہ طارق مسعود فوجداری مقدمات کا تجربہ رکھتے ہیں، فائز عیسی سول کیسز میں ان کی کارکردگی سے متاثر ہیں۔

جسٹس فائز عیسی کے مطابق ججز کو جب کسی خاص نوعیت کے مقدمے کا انتخاب کرنے کا اختیار ہی نہیں تو پھر سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے میں ان کا تجربہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ قاضی فائز عیسی کے بقول اگر ایک جج اپنی کارکردگی اپنے تجربے کے برعکس آئین کے عین مطابق تبدیل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو پھر اسے جج ہی نہیں ہونا چاہئے۔

قاضی فائز عیسی نے ججز کے temperament کو لے کر چیئرمین کے ٹرائیکا پر بھی نام لیے بغیر ہنستے ہوئے تنقید کی۔ ان کے مطابق اگر جج کسی مقدمے میں غصہ کر بھی جاتا ہے تو اسے سٹائل کے زمرے میں تصور کیا جانا چاہئے ناکہ ان کی اہلیت پر دھبے کی صورت میں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اس اجلاس کے کچھ ممبران اسی بنیاد پر نااہل ہوجانے ہیں۔

اجلاس کے آخر میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیش آئی جب سردار طارق مسعود اور فائز عیسی نے خاص طور پر چیئرمین کی جانب سے نامزد کردہ ججز کے مسترد ہونے کو اجلاس کی کاروائی کا حصہ بنانے پر زور دیا کیونکہ اکثریتی ممبران نے ان ناموں کی مخالفت کی۔ اس موقع پرچیئرمین جسٹس بندیال چلتے اجلاس سے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ باقی ممبران بات کرتے رہ گئے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پیش کردہ اعلامیے کے متن اور اجلاس کی تمام تر کاروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے دوران اجلاس خاص کر آخر کے حصے میں چیف جسٹس اپنے نامزد کردہ ناموں کے آفیشلی “مسترد” کرنے کو اپنی ہار تصور کر رہے ہوں۔

اس نوعیت کے کسی بھی اجلاس میں منٹس آف میٹنگ پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری نہیں ہوا کرتی۔ منٹس آف میٹنگ اجلاس کی تمام کاروائی کا عکس ہوتی ہے اور کم از کم آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق نہ صرف چیف جسٹس کے نامزد کردہ نام اکثریتی رائے سے مسترد ہوئے بلکہ مسترد کرنے کی اس کاروائی کو ممبران کی جانب سے باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

یوں اجلاس کے پہلے حصے میں قاضی فائز عیسی کی جانب سے اٹھایا گیا اعتراض کہ ماضی میں اجلاس کی کاروائی کے ریکارڈ میں تحریف کی گئی، نہ صرف درست ثابت ہوا بلکہ بدقسمتی سے اسی اجلاس کی کاروائی تک کے منٹس میں تحریف ہوئی جہاں تحریف کا یہ معاملہ اٹھایا گیا۔

چیف جسٹس نے دنیا جہاں کے قصے کہانیاں سنانے کے باوجود سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی پر کسی اصول کو وضع کرنے سے گریز کیا۔

میری ذاتی حیثیت میں یہ اصول وضع کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس طریقے سے کسی کے من پسند افراد کی تقرری کا راستہ بند ہوتا ہے۔

چیئرمین کے ٹرائیکا سے اختلاف رکھنے والے تمام ممبران بھی ایسے ہی کسی اصول پر زور دیتے رہے جس سے چیئرمین آخر تک کنی کتراتے دکھائی دیے۔

چیئرمین کی جانب سے قاضی فائز عیسی اور سردار طارق مسعود کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ اونٹ کا کینہ غلط طور پر پہلے نمبر پر مشہور ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے