اہم خبریں

آئین وائن : مطیع اللہ جان کا کالم

فروری 3, 2025 3 min

آئین وائن : مطیع اللہ جان کا کالم

Reading Time: 3 minutes

‏انڈیا کے آئین کا آرٹیکل 222 ہائیکورٹ جج کے ایک سے دوسری ہائیکورٹ میں تبادلے کا اختیار صدرِ مملکت کو دیتا ہے مگر اُس میں صرف چیف جسٹس آف انڈیا سے مشاورت ضروری ہے، پارلیمانی جمہوریت میں صدرِ مملکت سر کا تاج ہوتا ہے مگر سر یا دماغ نہیں۔

اسی طرح انڈیا میں بھی ریاست جھارکھنڈ کی سابق گورنر اور سنتھالی قبیلے کی خاتون بھارتی صدر دروپتی مورمو کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون سی ریاست کے ہائیکورٹ جج کے کس دوسری ہائیکورٹ میں تبادلہ کرنا ہے یا وہاں لا کر اُسے چیف جسٹس بنانا ہے-

‏ویسے بھی پارلیمانی آئین میں درج صدارتی اختیارات کافی حد تک (ماسوائے مخصوص حالات کے) ایک ربڑ سٹیمپ ہوتے ہیں جن کا ملک کا وزیراعظم جس کا بے دریغ استعمال کرتا رہتا ہے۔

مگر انڈیا میں ہائیکورٹ کے ججوں کے تبادلے میں اگر وزیراعظم دلچسپی لے تو یہ ایک سکینڈل ہوتا ہے، اسی لیے معمول کے حالات میں چیف جسٹس آف انڈیا ہی ایسے تبادلوں کی تجویز کا آغاز کرتا ہے جس کی وجہ متعلقہ جج کی ذاتی و عدلیہ کی انتظامی ضروریات بھی ہوتی ہیں۔

‏اب آ جائیں پاکستان کی طرف جہاں دیگر آئینی تنازعات کی طرح ہائیکورٹ جج کے بدنیتی پر مبنی تبادلے کا جواز بھی انڈین آئین کے آرٹیکل 222 کا حوالہ دے کر گھڑا جاتا ہے، اس شق میں انڈیا کا صدر صرف چیف جسٹس آف انڈیا سے عموماً اُسی کی بھیجی ہوئی ہائیکورٹ جج کے تبادلے کی تجویز پر مشورہ کرتا ہے (اور وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہوتا ہے)-

پاکستان میں مقابلے کی آئینی شق 200 کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت کو تبادلے سے متعلقہ دو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت کی شرط سے اقلیت میں بدلا گیا ہے۔

ہماری "بے روایتی” اور "جام حوری” تاریخ میں فیصلوں کی ضروری پیشہ وارانہ وجوہات بتانے کی شرط کو ڈانگ سے ہانکے گئے پارلیمانی ڈنگروں کی اکثریتی ووٹ کی مدد سے آئین یا کسی قانون کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

‏انڈیا اور وہاں کی خاتون صدر کی سیاسی تاریخ کے برعکس پاکستان اور اُس کے صدر آصف علی زرداری کی تاریخ تو جیالے ججوں کی تھوک کے حساب سے بھرتیوں سے بھری پڑی ہے۔

پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ تبادلوں کے پیچھے سب پر بھاری ایک زرداری اور زندہ بھٹو ہے۔
اس کے علاوہ انڈین آئین کی مثال دینے والے بے شرم تجزیہ کار یہ نہیں بتاتے کے وہاں کی فوج کے کسی گمنام آرمی چیف کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت اور پارلیمنٹ انتہائی ڈھٹائی والی دو تہائی اکثریت سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں بینچوں کی تشکیل نہیں کرتے۔

‏بہرحال اگر ججوں کے تبادلوں کے فیصلے ہماری "موڈی سرکار” کی بجائے ہماری "مودی سرکار” بھی کر رہی ہوتی تو کم از کم آئین سے سنگین غداری کا اندیشہ نہ ہوتا مگر یہاں تو سارا معاملہ کسی فرد واحد کے موڈ کا ہے جو جس طرف غصے سے دیکھے تو اُس طرف ایٹمی میزائل ہی چل جائیں۔

انڈیا میں جس "تھلسیناادھی یکش” پر سیاست میں ملوث ہونے کاالزام لگا دیا جائے تو کوئی اس کو سنجیدہ ہی نہیں لیتا جبکہ ہمارے ہاں ایسے ہی سچے الزام کو عوام کے علاوہ سب سنجیدہ لے لیتے ہیں اور الزام لگانے والے کو پریس کانفرنس میں خود کو جھوٹا ثابت کرنا پڑتا ہے۔

‏بارہ اکتوبر ۱۹۹۹ کو نواز شریف کی فوج کے خلاف بغاوت (اب تو شاید ن لیگ کا یہی موقف ہے) سے کچھ عرصہ پہلے کور کمانڈر کوئٹہ جنرل طارق پرویز کو اس لیے برطرف کر دیا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف سے ملے تھے، ظاہری بات ہے اگر وہ وزیر دفاع سے بھی ملتے تو ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا۔

مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایک وزیراعظم کو خود ایسا کرتے شرم نہ آئی اور اُس کو آرمی چیف جنرل مشرف کے ڈنڈے کی نوک پر اپنے مبارک دستخطوں سے اُس جرنیل کو برطرف کرنا پڑا۔

ایک ماتحت محکمے کے ایک سرکاری ملازم نے اپنے ادارے کی خود مختاری کے لیے آئین اور قانون کو روند ڈالا مگر ہماری آئینی طور پر آزاد عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک جج کو رابطہ کر کے اُسے ایک دوسری ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا لالچ دے کر حکومت اور ایوان صدر کے ذریعے سے فیلڈنگ لگا کر آخر میں عدلیہ کے سپہ سالار سے انگوٹھا لگوا لیا جاتا ہے۔

کہاں ایک وزیراعظم و وزیر دفاع کا اپنے ماتحت سے ملنا جرم ٹھہرتا ہے اور کہاں جنرل مشرف کی بھٹکتی بدروح مرحوم جسٹس وقار سیٹھ کی اچھی روحوں کو سبق سکھانے کے لیے اپنا ڈنڈا "بالادست پارلیمنٹ” ، "منتخب حکومت” اور "آزاد میڈیا” کے بیچ سے گذارتے ہوئے آئینی طور پر "خود مختار عدلیہ” کے گلے تک لے آئی ہے۔

میرا آج تک کا تجربہ کہتا ہے کہ آئین شعور دیتا ہے مگر جب اس کا وائن wine بنا دیا جائے تو یہ اقتدار کا نشہ، پی سی او ایک وائن ہی تو ہوتا ہے، جیسے پرانی بوتل میں نئی کچی شراب جسے پی کر دو نمبر سستے شرابی نشے میں جھومنے کی ایکٹنگ کر کے ساقی کو لبھاتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے