اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن پر نوم چومسکی نے کیا کہا تھا؟
Reading Time: 2 minutesرستم اعجاز ستی/اسلام آباد
افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کے ہلاک ہونے کی اطلاعات کے بعد اس معاملہ پر نئی بحث شروع ہو گئی۔اخبارات میں مضمون شائع ہو رہے ہیں،سوشل میڈیا پر بھی ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔یہ اچھی بات ہے کہ جو کچھ کسی کے ذہن میں ہے کہہ رہا ہے اور اپنی بات کرنے کا ہر کسی کو حق حاصل ہے۔
اسامہ کے خلاف جب امریکہ نے آپریشن کیا تو اس وقت بھی ہر کوئی اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا اور اس معاملے پر بہت سے سوالات نے جنم لیا تھا۔
شنید ہے کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور نوم چومسکی نے امریکی کارروائی کو دو حوالوں سے مجرمانہ اقدام قرار دیا تھا۔
نوم چومسکی کے مطابق ایک ملک کی آذادی و خودُمختاری پر حملہ کیا گیا اور دوسرا یہ کہ ایک ایسے شخص کو گرفتار کرنے کے بجائے قتل کر دیا گیا جس میں خود امریکیوں کے بقول اس کے کمپاؤنڈ سے مزاحمت نہیں ہوئی۔
نوم چومسکی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ایک طرح کے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ تمام تر شوروغوغا کے باوجود وہ ایک مشکوک ملزم تھا،دنیا کی کسی عدالت نے اسے نائن الیون کے حملوں کا مجرم قرار نہیں دیا۔
چومسکی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہئے کہ اس صورت میں ہمارا ردعمل کیا ہوتا اگر عراقی کمانڈوز ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر بش کے کمپاؤنڈ میں اترتے،اسے قتل کرتے اور اس کی نعش بحیرہ اوقیانوس کی موجوں کی نذر کر دیتے۔ بش تو ہر گز مشکوک ملزم نہیں بلکہ مصدقہ طور پر وہ فیصلہ ساز ہے جس نے عراق پر حملے کا حکم دیا اور اور سپریم انٹرنیشنل کرائم کا ارتکاب کیا۔یہ وہی جرم ہے جس پر نورمبرگ ٹریبونل نے نازیوں کو پھانسی پر لٹکایا تھا۔
نوم چومسکی نے کہا کہ عراق میں لاکھوں انسانوں کا قتل،لاکھوں کا بے گھر ہو جانا اور ملک کے بڑے حصے کی تباہی جیسے جرائم بہرحال اس جرم سے کہیں بڑے ہیں جن کا الزام اسامہ پر لگایا جا رہا تھا۔