کالم

آخری معرکہ، فیض آباد پنڈی و اسلام آباد

نومبر 25, 2022 2 min

آخری معرکہ، فیض آباد پنڈی و اسلام آباد

Reading Time: 2 minutes

ممثّل بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا:

"گاؤ بھوس٭٭ کے،”وقت آن لگا ہے۔

کپتان ہم سے کہے:

"اٹھو… بھوس٭٭ کے،” ارمان مسلے جاتے ہیں۔

خواہشیں حسرت بن جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ مل کر بچوں کے نام سوچےجاتے ہیں، وہ کسی عبدا لّطیف کی چوکڑی کو جنم دے رہی ہوتی ہے۔

یہی دنیا ہے، یہی مایا۔ کارِ ناکام ہے یہ، کارِ نا کام۔

یک سال ادھر سب کچھ کہ ہنکی ڈوری تھا۔ فضائیں مشک بُو، پسینے گلاب؛ دن کو چِنتا نہ رات کو خواب۔

سورج ڈھلتے مغرب ادا ہوتی۔

یارانِ خوش جمال چوتھے مالے پر جمع ہوتے۔ موسیقی کہ روح کی غذا ہے، حسن کہ نفس کا آبِ حیات جو ہے۔

رُوم رُوم سے صدا اٹھتی:

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے… وہ ٹھگنا نابغہ کہ دنیا جسے عامر خان کے نام سے یاد کرتی ہے، کیا خوب کہتا تھا:

اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں،

یا میں جھول جاؤں ان گھٹاؤں میں کہیں

دوام مگر سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔

جانے کس بد خصال کی نظرِ بَد تھی، سب ختم ہو گیا۔

سوچو تو لگتا ہے جیسے کوئی خواب تھا۔ اقبال کا خواب پورا کرتے کپتان خود خواب ہوچلا۔

انسان چیخ اٹھتا ہے:

دنیا بنانے والے کیا تیرے مَن میں سمائی؛

تو نے کاہے کو دنیا بنائی۔

جاڑے کی ایک شب کپتان سے خلوَت ہوئی۔ عرض کی، اتنا بے سَمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے۔

کپتان ہنسا۔ طالبِ علم کی ٹنڈ پر چپت لگائی۔ موج میں تھا۔ ایک اور لگائی۔

طالبِ علم نے بھنے گوشت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ بڑا ٹکڑا مُنھ میں ڈال کر چباتے ہوئے کپتان نے آنکھ مِیچ کر یہ شعر پڑھا:

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ

مت پوچھ ولولے دلِ نا کردہ کار کے

لٹیرے مگر کائیاں نکلے، عیّار!

سپہ سالار کہ اکل کھرے سپاہی۔ کان ان کے بھر دیے۔ کپتان کو دیوث بنا کر دکھا دیا۔ سپاہی مگر سادہ دل؛ عیّاری سے ان کو علاقہ نہیں۔ دنیا کہ بدلنے جا رہی تھی۔ امّت مسیلمہ کا رہ نما۔ دنیا جس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کو تھی کہ

مجھے اپنوں نے مارا، گَیروں میں کہاں دَم تھا
میری کِشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

ایسا لیڈر صدیوں میں گاہ گاہ۔ قوم مگر اپنی خوش قسمتی سے بے خبر اس کو ضائع کرنے پر مُصر۔

امکانات کی ایسی دنیا کہ وطن جنت بن جائے۔ اس کے لیے مگر اٹھنا ہو گا۔ پوری قوم شیشہ پلائی دیوار کی طرح کپتان کی آواز پر اکٹھی ہو۔

گولیاں وہ کھا چکا۔ موت کا خوف اس کو کبھی نہ تھا۔ اب تو جان پاجامے میں لیے پھرتا ہے۔ ڈرا وہ اس کو سکتے نہیں۔ قوم کو سمجھنا ہو گا۔ ڈر کے آگے جیت ہے۔

ممثّلِ بے بدل پنکج ترپاٹھی نے کہا تھا:

"گاؤ بھوس٭٭ کے”۔ وقت آن لگا ہے۔

کپتان ہم سے کہے: "اٹھو۔۔بھوس٭٭ کے”

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے