کالم

ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوانے کا وقت

جنوری 27, 2023 3 min

ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوانے کا وقت

Reading Time: 3 minutes

ہم فیض کی نظم “ہم دیکھیں گے “ بچپن سے ہی ریڈیو پر سنتے آئے، پھر پڑھتے بھی رہے اور گاہے گنگنائی بھی ہو گی۔

اس نظم میں ایک ایسے انقلاب کا ذکر ملتا جو میں اکثر سوچتا کہ یہ کب ہو گا بھلا؟ اب مگر اس کے ایک شعر کی عملی شکل دکھائی دینے لگی ہے۔

جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے

ارض پاکستان میں گزشتہ چند دنوں کا جائزہ لیں تو دکھائی دے گا کہ خوف کے بے اٹھوا دیئے گئے ہیں اور باقی اٹھوائے جا رہے ہیں، خلق خدا نے بالآخر راج کرنے کی بظاہر ٹھان لی ہے۔

گزشتہ روز فواد چوہدری کو گرفتاری کے بعد عدالت سے طبی معائینہ کے لیے پمز اسپتال کے شعبہ امراض دل میں لایا جاتا ہے ، ویسے جو کچھ وہاں ہوتا ہے اس کیبعد اصولی طور پر اس شعبہ کیساتھ پاکستان کے کینسر زدہ بوسیدہ نظام کے مناسب علاج کے لئیے کسی نہ کسی سینٹر کی فوری تعمیر بہر حال لازمی ہے۔ ڈاکٹر نے حسب معمول جب معائنہ شروع کیا تو پولیس افسران بار بار ڈاکٹر پر دباو ڈالیں کہ جلدی کریں جلدی کریں جج صاحب بلا رہے ہیں.

اشرافیہ کے ان نمائندگان سے کوئی پوچھے کہ یہ جج نہ ہوئے کسی تھانے کا محرر ہوا جو فون اٹھا کے بیٹھا ہے اور آپ کو بار بار کال کر کے فواد چوہدری کی پیشی کا حکم دے رہا ہے ۔

خیر وہاں موجود دوستوں نے عدالت میں موجود ہمارے کورٹ رپورٹرز سے رابطہ کیا جس پر انہیں اور ساتھ ہی عدالتی عملے کو بھی تعجب ہوا کہ جج کیسے بلا رہا ہے جب ایک بار پیشی ہو گئی ، اب ریمانڈ پر فیصلہ ہونا بہرحال یہ بھی بعد میں کلئیر ہو گیا کہ کسی جج نے پیشی کا کہا ہی نہیں بلکہ اشرافیہ کے نمائندگان خود سے ہی پیشی پیشی کی رٹ لگا رہے تھے۔

قانون کی عملداری کا فقدان ہونے کی وجہ سے ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ڈنڈا سٹیٹ کے طور پر ریاستی مشینری ہمیشہ سے حرکت میں آتی ہے۔ طبی معائینہ مکمل نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹرز کو بھی بار بار جج جج کر کے نظام کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔

فواد چوہدری کے ساتھ کمرے میں موجود ہمارے دوست ثاقب ورک نے بتایا کہ پولیس دو سے تین منٹ بعد بار بار آئے جائے اور بعد میں تو وہ پاس ہی بیٹھ گئے کہ کہیں فواد چوہدری کسی کیمیائی ہتھیار کا فارمولہ ہی نہ کسی کو بتا دے۔

اس سے پہلے اگر گرفتاری کو دیکھیں تو یقین مانیں کسی کی بچی سے ریپ ہو ، قتل ہو یا کوئی بھی بڑے سے بڑا واقعہ ہو پولیس کے پاس کبھی بھی لاہور فرانزک لیب تک جانے کے وسائل نہیں ہوئے اور ہمیشہ مدعی ہی خرچہ اٹھاتا ہے لیکن جس طرح اتنا بڑا لشکر ایک ایف آئی آر پر لاہور کاروائی کے لئیے پہنچا یقین مانیں اسلام آباد کے بڑے بڑے ہائی پروفائل ریپ اور مرڈر کیسسز میں پولیس کو عوام کے سامنے وسائل کا رونا روتے دیکھا ہے حتی کہ بس ، جہاز ، ہوٹل تک کا ٹکٹ سپانسر ہوتا ہے۔

بہر حال ہماری تو اتنی سی التجا اور دعا ہے کہ کاش امیر شہر کو کوئی فقرہ ناپسند آنے پر حرکت میں آنے والا قانون عام انسان کی جان چلی جانے پر بھی اتنی ہی مستعدی سے کام کرے اور پاکستان کی غریب عوام کی سات نسلوں پر احسان عظیم کر کے معرض وجود میں آنے والی بیوروکریسی بھی شاہ پرستوں کی صف میں کھڑے ہونے کی بجائے آئین پاکستان سے وفاداری نبھائے۔تحریر کا اختتام حسرت موہانی کے اس شعر سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا
اس ناخدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی میری ڈبوئی ہے ساحل کے پاس

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے