کالم

”بدکردار“کا لفظ سنیں گے

مارچ 9, 2023 4 min

”بدکردار“کا لفظ سنیں گے

Reading Time: 4 minutes

سوشل میڈیا پر کردار کا تعین آپ کے قول و فعل میں تضاد کی شکل میں ملتا ہے۔ یہاں کسی کے کردار کا فیصلہ کم از کم میں اگلے کے بیانات، اور ان بیانات کی روشنی میں اگلے کے لائیکس، لافٹر، ہارٹ ری ایکشن، شئیرنگ وغیرہ کی بنیاد پر کرتا ہوں۔ اور چونکہ میرا اپنا پیمانہ دوسروں کے لیے یہی ہے لہذا میرا گمان ہے کہ میرے کردار کا تجزیہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا۔

قومیت و ذات پات کو لے کر احساس تفاخر ویسے بھی باچیز کے لیے ایک احمقانہ جذبہ ہے تاہم کوئی حماقت پر مبنی تصور کو حق سمجھنا چاہے تو اس کی مرضی۔

میرا کردار یہ ہے کہ میں ایسے ایشوز پر حتی الامکان بات کرنے سے گریز کر کے انہیں ایشو بنانے سے گریز کرتا ہوں۔ آج کر رہا ہوں کیونکہ آج بھی بات نہ کی تو ایک فرد کے حقوق کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

فرد کے عمل کا تعلق اس کے نسب سے نہیں ہو سکتا۔ یہ سب ہماری امیدیں یا ہمارا گمان اور سوشل کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سید کبھی زنا کا مرتکب نہ ہو پاتا، اس کے اندر زنا سے بھاگنا پروگرام کر دیا جاتا جسے روکنے کا اختیار اس کے پاس نہ ہوتا، ویسے ہی جیسے پلک جھپکنے سے رکنا آپ کے یا میرے اختیار میں نہیں۔

میرے چند قریبی رشتہ داروں کو ایک دور میں مذہب کی عملی تفسیر سے عشق ہوگیا۔ گھرانہ بہت قلیل مدت میں اچانک چند سو برس پیچھے چلا گیا۔ یہ سب تب ہوا جب بچے ابھی پیدا نہ ہوئے تھے یا بہت چھوٹے تھے۔

میرا خیال ہے ہم جس قدر پیار سے بچوں کی تربیت کریں یا جتنا چاہیں سختی سے، بچہ معاشرے سے اثر لے کر رہتا ہے۔ مذکورہ بالا اقارب کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا۔ بچے چھوٹے تھے تو کہا کرتے تھے موسیقی حرام ہے۔ بچے بڑے ہوئے تو کانسرٹس میں جا کر خوب انجوائے کرتے پائے جاتے۔ بچے چھوٹے تھے تو کہتے مسجد میں نکاح کروا کر رخصتی کروائیں گے۔ بچے بڑے ہوئے تو اسی نارمل انداز میں شادیاں ہوئیں جیسے لوگ کرتے ہیں۔

میں ان والدین پر تو تنقید کرتا ہوں تاہم ان کے بچوں سے کوئی اختلاف نہیں۔ ایک پیڑھی کے تصورات و عقائد دوسرے پیڑھی کے لیے حجت کی حیثیت نہیں رکھ سکتے۔

میرے نزدیک یہ ایک عدد طے شدہ حقیقت ہے۔ چاہیں تو اس کے برخلاف اولاد کی تربیت کر کے دیکھ لیں، چاہیں تو اپنے نسب پر غرور کر کے دیکھ لیں۔ بعد میں کافی افسوس کا احتمال ہے۔

کسی بک فئیر میں وجدان راؤ نے ناف ظاہر کرتا ایک عدد لباس زیب تن کیا جس سے احباب آگ بگولہ ہوگئے۔ ذاتی رائے جو اب تک میں نے کسی کو نہیں دی، وہ یہی ہے کہ ناف یا تنی اوور ریٹڈ ہے۔ اس پر مختصر اجماع چند نجی احباب کے ساتھ کسی پوسٹ یا انباکس میں کچھ عرصہ پہلے ہی ہوا جب اہل سوشل میڈیا اس “تنی ساگا” سے ابھی کچھ دور تھے۔

جون، ناف پیالے کی عظمت بیان کرتے کرتے دنیا سے چل بسے، مجھے ناف پیالے کی نسبت آج بھی خواتین کی آنکھوں کے گرد حلقے پرکشش لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ مجھے نہیں پتہ۔ اس کیوں کا جواب بلاوجہ کی توجیہہ ہے۔ آپ کو سیاہ رنگ کی قمیض کیوں اچھی لگتی ہے، اس کا کوئی جواب نہیں۔ بس اچھی لگتی ہے تو لگتی ہے۔ ویسے ہی، تنی، مجھے سخت اوور ریٹڈ لگتی ہے۔

احباب کا مسئلہ مگر کچھ اور ہے۔

وقت کی لکیر پر معاشرہ کبھی یکسانیت کا شکار نہیں رہ سکتا۔ تغیر کو جرمن آمر اور اطالوی فاشسٹ نہ روک سکا، نہ جنرل باجوہ روک پایا۔ حوروں کے حسن کے چرچے طارق جمیل کی حور بیانی پر دم توڑ گئے۔ ہم جنس پرستی کو معاشرے میں جس قدر برا سمجھا جائے، ہم جنس پرست آج آپ کے معاشرے کی ایک حقیقت ہیں۔

حق و باطل کی بحث سے ہٹ کر، آپ معاشرے میں سرایت کرتی تبدیلی نہیں روک سکتے۔ اگر ناف دکھاتا لباس آپ کے نزدیک ممنوع ہے تو کسی کی ماں پر بہتان لگانا بھی کوئی حکمِ خداوندی نہیں۔ پھر اگر آپ کسی کے عمل کو بنیاد بنا کر اس کی ماں پر بہتان تراشی کرنے میں آزاد ہیں تو اگلا اپنے ایسے عمل میں کیونکر آزاد نہیں جس سے آپ کی کوئی حق تلفی نہیں ہو رہی؟

میرا ہئیر سٹائل مجھے پسند ہے۔ بہت سے قریبی احباب کو نہیں بھی پسند ہوگا۔ مجھے پسند ہے تو بات ختم۔

ممکن ہے بلکہ غالب امکان ہے کہ دنیا کو میرا حلیہ دیکھ کر کسی نشئی یا چرسی کا گمان ہوتا ہو۔ ہوتا رہے۔ گمان پالنا آپ کا حق اور آپ کا ظرف ہے، اپنا آپ ویسا رکھنا جیسا مجھے اچھا لگتا ہے میرا حق۔ آپ کی شرٹ آپ کو پسند ہے۔ ممکن ہے مجھے آپ جوکر لگ رہے ہوں۔ یہ میرا ظرف میرا حق ہے کہ میں تاثر کیا لیتا ہوں۔ تاہم اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ نے کب کس جگہ کیسا دکھائی دینا ہے کیسا حلیہ رکھنا ہے تو یہ حق پھر سب کو دینا ہوگا۔ ہاں، اس بات پر بحث ہو سکتی ہے، نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ قبرستان میں شادی کا لباس پہننا معمول کے برعکس ہے مگر اس بنیاد پر واویلہ بے جا ہے۔

پچھلے ایک دو ہفتے میں نے خاکوانی کے کچھ شذرات کا پوسٹ مارٹم کیا۔ اسی دوران وجدان، خاکوانی سمیت کئی جانی پہچانی شخصیات سے ملیں اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ اس پر درجن بھر احباب نے وجدان کی خاکوانی کے ساتھ اس تصویر پر باچیز کو ٹیگ کیا، انباکس میں بھیجی، کمنٹس میں چپکائی۔ چند جگہوں پر خاکوانی کو دیکھ کر میں مسکرایا مگر چپ کر گیا۔ وجہ یہ کہ خاکوانی یا وجدان نے کیا پہننا ہے کیا کھانا ہے کیا پینا ہے کس کے ساتھ تصویر کھنچوانی ہے یہ ان کا مسئلہ ہے۔ مجھے ان کی سوچ ان کے بیانات سے اتفاق یا اختلاف ہوتا ہے اور میری رائے یہیں تک رہنی چاہئے۔

باقی میرے فقرے میرے لافٹر، میرے کمنٹس، میرے ردعمل میرے کردار کے عکاس ہیں۔ میں نے انہیں کب کہاں کیسے استعمال کرنا ہے، میرا خیال ہے میری ڈیفینیشن اسی سے ہوگی۔

وجدان کا لباس مجھے aesthetically پسند نہیں آیا۔ جس نے پہنا اس کو پسند آیا، بات ختم۔ باقی کسی نے کب کہاں کسے تنی دکھانی ہے کسے شانہ کسے پیر، یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ میں نے آج تک اس پر نہ کوئی فقرہ اچھالا ہے نہ مذاق اڑایا ہے، نہ کبھی اڑاؤں گا۔

مزیدبرآں کس نے کیا پہننا ہے کیسا دکھائی دینا ہے یہ فرد کا استحقاق ہے۔ میں اس حق کے استعمال کو پسندیدگی یا ناپسندیدگی سے دیکھ کر عموماً اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں تاہم کوئی اس حق کو حق نہیں مانتا تو میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے