کالم

صرف فیصلے نہیں ضابطے بھی شفاف ہونا ضروری

اپریل 3, 2023 3 min

صرف فیصلے نہیں ضابطے بھی شفاف ہونا ضروری

Reading Time: 3 minutes

حیران ہوں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ میں بیان کیا گیا اہم ترین نقطہ موجودہ بحث میں کہیں ہے ہی نہیں۔ ماہر قانون اور نامور وکلا کی بحث میں بھی کہیں نظر نہیں آرہا کہ ایک معاملہ جس کے حوالہ سے ایک صوبے کی ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے ایک فیصلہ سنایا جس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل اسی ہائیکورٹ میں دائر ہوئی۔ اپیل میں عدالت کی طرف سے سنگل بینچ کے فیصلے کو معطل کرنے سے گریز کرتے ہوے فریقین کو سماعت کے لیے طلب کیا گیا۔ سنگل بینچ کے فیصلہ کی مبینہ خلاف ورزی کی وجہ سے توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی۔

جب ایک طرف لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب میں انتخابات کے معاملہ پر مذکورہ اپیل اور توہین عدالت کی درخواست زیر سماعت ہو اور دوسری طرف پشاور ہائیکورٹ میں کے پی کے میں انتخابات کے متعلق رٹ پٹیشن زیر سماعت ہو تو کیا ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو 184(3) کے تحت حاصل original jurisdiction کو بروئے کار لاتے ہوے دونوں ہائیکورٹس میں جاری کاروائیوں کو یکسر نظر انداز کرکے اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔

اصل قانونی سوال تو یہی ہے کہ کیا قانون، ضابطہ اور پاکستان اور دیگر ممالک کی اعلی عدالتوں کے فیصلوں میں طے شدہ اصول سپریم کورٹ کو اس قسم کا اختیار دیتے ہیں۔ یہ معاملات جب ہائیکورٹ سے فیصلہ ہو جاتے تو یقینانا آرٹیکل 185 کے تحت اپیل کی صورت میں سپریم کورٹ میں جاسکتے تھے اور اس صورت میں سپریم کورٹ اپنی appellate jurisdiction میں ہائیکورٹ کے فیصلوں کی قانونی حیثیت کو جانچ سکتی تھی اور اپنا حتمی فیصلہ سنا سکتی تھی۔

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد آئین کا آرٹیکل 184(3) جس کے حوالہ سے پارلیمنٹ نے حالیہ قانون سازی کی ہے شاید صرف سپریم کورٹ کے سو موٹو اختیارات سے متعلق ہے جبکہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔

آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کی original jurisdiction کے متعلق ہے یعنی ایسے معاملات جو پہلے کسی بھی دیگر عدالت کی بجائے ڈائریکٹ سپریم کورٹ میں پٹیشن کے ذریعے سے داخل ہو سکیں یا پھر سپریم کورٹ جن کے متعلق سو موٹو ایکشن لے سکے۔ یہ ایک غیر معمولی اختیار ہے اور خود سپریم کورٹ طے کرچکی ہے کہ یہ اختیار صرف غیر معمولی حالات میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ اگر ایک معاملہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہو تو اس معاملہ کے متعلق یہ اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

موجودہ صورت حال میں ہائیکورٹ میں ممکنہ غیر ضروری تاخیر کے خدشہ کو دور کرتے ہوے جسٹس منصور علی شاہ کے تحریری فیصلہ، جسے 4/3 کا فیصلہ قرار دیا گیا، میں ہائیکورٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تین دنوں میں انٹرا کورٹ اپیل نمٹائے۔ اس فیصلہ میں غیر قانونی بات کیا ہے، کوئی نہیں بتا رہا۔ بلکہ ہائیکورٹ سے فیصلہ کے بعد جب آرٹیکل 185 کے تحت اپیل کی صورت میں یہ معاملہ سپریم کورٹ جائگا تو اس صورت میں نہ تو بینچ بنانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے پاس کردہ نئے قانون کا اس پر اطلاق ہو گا اور نہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کا آرٹیکل 184(3) کے تحت سنے جانے والے مقدمات میں چیف جسٹس کی طرف سے سپیشل بینچ بنائے جانے کے اختیار سے متعلقہ فیصلہ اس اپیل پر اثر انداز ہو گا۔

ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ ایک شفاف اور predictable انصاف کے نظام کے قیام کے لیے صرف فیصلوں کا شفاف یا outcome fairness کا ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ ضابطہ کا شفاف اور process fairness کا ہونا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے اور ہر مقدمہ اور کاروائی کا ویسے ہی چلنا جیسے قانون میں مہیا کیا گیا ہو ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں کسی کی بھی من مانی کا کوئی عمل دخل بالکل نہیں ہونا چاہیے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے