اہم خبریں متفرق خبریں

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹائے گئے جسٹس قاضی فائز کے نوٹ میں کیا ہے؟

اپریل 8, 2023 2 min

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹائے گئے جسٹس قاضی فائز کے نوٹ میں کیا ہے؟

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوموٹو مقدمات کی سماعت روکنے کے فیصلے کو ختم کرنے والے چھ ججز اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔

سنیچر کی شام جاری کیے گئے چھ صفحات کے ایک نوٹ میں انہوں نے رجسٹرار عشرت علی کو بھی مخاطب کر کے اُن کے کام کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دیا ہے۔

انہوں نے اپنے نوٹ کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ: متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرۂ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ نوٹ کچھ دیر بعد ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔


مکمل نوٹ پاکستان 24 کے ٹوئٹر ہینڈل پر موجود ہے.

اپنے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ کی کارروائی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اپنے تفصیلی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’میرے فیصلے پر چھ رکنی بینچ کی تشکیل کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔ مقدمات کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہو گا تو عوام کا اعتماد عدلیہ پر نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے سے لکھا کہ وفاقی حکومت رجسٹرار عشرت علی کو تین اپریل کو عہدے سے ہٹا چکی تھی مگر رجسٹرار نے حکومت کا حکم نہ مانتے ہوئے چار اپریل کو چھ رکنی بینچ کا روسٹر جاری کیا۔

’رجسٹرار نے 29 مارچ کے فیصلے پر غیرقانونی سرکلر جاری کیا۔ غیرقانونی سرکلر کا چیف جسٹس کو بھی خط لکھا لیکن کوئی جواب نہ ملا اور سرکلر غیرآئینی ہونے کا ادراک ہونے پر ہی چھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کوئی دوسرا بینچ اپیل نہیں سن سکتا ہے۔ نام نہاد لارجر بینچ کی تشکیل قانونی تھی نہ وہ آئینی عدالت تھی۔‘
فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’چھ رکنی لارجر بینچ کے فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ جلد بازی میں لارجر بینچ نے سماعت کی اور آٹھ صفحات کا فیصلہ بھی جاری کیا۔‘
’معمول کے مطابق سماعت ہوتی تو چار ججز سوچتے کہ ان کے سینیئر کیا کر رہے ہیں۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے. اختیارات سے تجاوز کیا جائے تو ججز کے حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔‘

تفصیلی نوٹ میں انہوں نے کہا ’چھ رکنی بینچ غیرآئینی تھا اس لیے 29 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔‘

’لارجر بینچ کے حکم سے آمرانہ جھلک آتی ہے جو آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کے لیے استعمال کیا گیا لفظ ماسٹر آف روسٹرز آئین میں کہیں نہیں ملتا ہے۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے