چیف جسٹس عدلیہ اور وکیلوں کا باپ ہوتا ہے: لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں ماہر قانون و آئین ریما عمر نے لاہور میں تحریک انصاف کی حمایت سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اُن کے ساتھی ججوں کے حق میں منعقدہ سیمینار میں کی گئی تقاریر کا جائزہ لیا ہے۔
اُن کی رائے کچھ یوں ہے:
’پاکستان میں آئین کا تقدس اور عدالتی آزادی‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں ہمارے سینئر وکلاء نے بروقت انتخابات کی اہمیت پر بجا طور پر زور دیا۔
سپریم کورٹ میں ’تقسیم‘ کے بارے میں ان کے خیالات، تاہم، کہیں زیادہ بیان کرنے والے اور کافی افسوسناک ہیں۔
ان کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’مرکزی‘ مسئلہ انتخابات کا ہے، اور سپریم کورٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بڑے پیمانے پر اس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
قرارداد کے مطابق سپریم کورٹ کی ’تقسیم‘ اصولی نہیں ہے، بلکہ ججوں کی ’انا‘ اور فریقین کے ساتھ ’تعلقات‘ کی وجہ سے ہے، اور ججوں کو معاملات کو ’مناسب غور و فکر سے‘ حل کرنا چاہیے۔
تقاریر میں ان ’آئینی تنازعات‘ پر حیرت انگیز طور پر بہت کم بحث کی گئی جس کی وجہ سے ججوں کے درمیان ’تنازعات‘ پیدا ہوتے ہیں۔
قرارداد میں، وہ محض غیر فعال آواز میں درج اور فریم کیے گئے ہیں، گویا اس ’تقسیم‘ کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے، یا شاید ہر کوئی۔
اس کانفرنس اور اس کے مقررین کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ:
گویا آج سپریم کورٹ میں موجود کچھ ججوں نے ایسے فیصلے نہیں دیے جنہوں نے عمران خان، باجوہ اور فیض کے ’ہائبرڈ‘ دورِ حکومت کی بنیاد رکھی۔
گویا 2018 کے انتخابات کے بعد بھی انہی ججوں نے قانونی طور پر ناقص، متعصبانہ فیصلے نہیں سنائے، چاہے ان کے ذریعے آئین کو ’دوبارہ لکھا‘ گیا ہو۔
گویا ہمارے کچھ ججوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ہم عصروں سے مل کر جادوگری میں حصہ نہیں لیا اور اس کے خاندان کی تذلیل کی۔ گویا انہوں نے جج کو بعض مقدمات کی سماعت سے ’روک‘ نہیں دیا، اسے بنچ سے ہٹا دیا اور دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ایسے احکامات کو ’ایک طرف‘ کر دیا جو موجود نہیں ہی نہیں۔
گویا چیف جسٹس بندیال نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے میں مہینوں تاخیر نہیں کی اور سپریم کورٹ کو کم ججوں کے ساتھ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا۔
گویا انہوں نے اپنے ساتھی ججوں کی بات سننے سے انکار نہیں کیا اور ان ’’آئینی تنازعات‘ اور ’’تفرقات‘ کو حل کرنے کے لیے فل کورٹ میٹنگ بلائی۔
گویا چیف جسٹس بندیال نے سپریم کورٹ پروسیجرز بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے اختلاف کرنے والے ہر ایک جج کو چھوڑ کر ایک بینچ تشکیل نہیں دیا تھا، اور بینچ نے کسی ایسے قانون کے خلاف ’متوقع حکم امتناعی‘ منظور کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھا جو ابھی تک وجود میں ہی نہیں آیا۔
اس قدر تعظیم کے ساتھ (قابل ذکر مستثنیات کو ایک طرف رکھ کر)، تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے پاس افتخار چوہدری، ثاقب نثار، اور اب چیف جسٹس بندیال جیسے چیف جسٹس موجود ہیں، جو بار بار طاقت کے بے دریغ استعمال، حد سے بڑھتے اور جانبداری دکھانے کے بعد چلے جاتے ہیں اور اُن کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
ریما عمر نے آخر میں سیمینار میں کی گئی لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کی تقریر کا کلپ شیئر کر کے اس کو حاصل کلام قرار دیا جس کے سیمینار منعقد کیا گیا۔
9. With such a deferential -to put it mildly- bar (notable exceptions aside), no wonder we continue to have CJs like Iftikhar Chaudhry, Saqib Nisar, and now CJ Bandial, who get away with blatant abuse of power, overreach, partisanship time and again
This speech sums it up best: pic.twitter.com/90pFB0b9np
— Reema Omer (@reema_omer) April 16, 2023
لطیف کھوسہ اس ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس عدلیہ اور وکلا کے لیے والد کا درجہ رکھتے ہیں۔