کالم

جناح ہاؤس

مئی 14, 2023 3 min

جناح ہاؤس

Reading Time: 3 minutes

‏‏پی ٹی آئی کے شر پسند عناصر کی طرف سے جناح ہاؤس لاہور پر حملے اور اسے آگ لگانے کے واقعے سے قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کانپ اُٹھی ہو گی.

کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ کرنے والوں کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ اس گھر میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی رہے ہیں تو شاید انکو شرم ضرور آتی.
سچ پوچھیں تو مجھے بھی اس واقعے کے بعد معلوم ہوا کہ حملہ آوروں کا نشانہ بننے والی اس عمارت میں پرانے وقتوں میں پرانے پاکستان کے بانی بھی رہائش پذیر رہے ہیں، اور پھر اس پانچویں نسل کے نوجوانوں کو جو تربیت دی گئی تھی اس دوران انھیں اگر ملک کی صحیح تاریخ اور تاریخی عمارتوں کے بارے میں بھی کچھ پڑھا دیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی.

دکھ تو اس بات کا ہے کہ حکومت نے جناح ہاؤس کی حفاظت کے لیے فوج کی پوری کور تعینات کر رکھی تھی مگر پھر بھی یہ شر پسند عناصر سے نہ بچ سکا، زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثے کی بھرپور حفاظت کرتی ہیں، یہی وہ عمارت تھی جس میں عظیم قائد اعظم رہائش کے دوران پرانے پاکستان کے قیام کے لیے منصوبہ بندی اور رفقا سے مشاورت کرتے تھے، اس تاریخ اور تاریخی ورثے سے متعلق پانچویں نسل کے جنگجؤں کو کچھ زیادہ نہیں بتایا گیا.

اس نسل کے روحانی و فکری راہنما جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے رفقأ نے اسی جناح ہاؤس میں نئے پاکستان کی بھی بنیاد رکھی، قائد اعظم کے زیر استعمال جس فرنیچر کرسی میز وغیرہ کو شر پسندوں نے جلایا اس پر نئے پاکستان کے قیام کے منصوبے بھی بنے ہوں گے.

عوام کا غم و غصہ بجا ہے، اور سول سوسائٹی نے آج شمعیں روشن کر کے جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور جناح ہاؤس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجتماعی دعا مانگی ہے اس پر دل سے آمین کی صدا بلند ہوتی ہے.

یہ تو شکر ہے کہ جناح ہاؤس کسی قومی ورثے کے ادارے کی تحویل میں نہیں تھا وگرنہ یہاں تو قوم کے مستقبل نوجوان طالبِ علموں اور عام لوگوں کو پھٹے پرانے پاکستان کی تاریخ دیکھ کر مایوسی ہی ہوتی، ان کرسیوں میزوں پر وہ کتابیں بھی جلا دی گئی ہوں گی جن میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وہ مشہور تقریر تھی کہ افواجِ پاکستان عوام کی خادم ہیں اور اس ملک میں فیصلے اور پالیسی عوامی کی حکومت بنائے گی جبکہ افواج پاکستان ان پر عمل کرنے کی پابند ہوں گی، ہائے وہ سب کتابیں جل گئی ہوں گی، مگر فکر نہیں کیونکہ قائدِ اعظم کے فرمودات اور خوبصورت پورٹریٹ پورے ملک کی اعلی ترین سرکاری دفاتر وں میں آویزاں ہیں، ہم سب جناح ہیں اور پاکستان ہمارا جناح ہاؤس ہے.

اس جناح ہاؤس پر بھی اس وقت پانچویں نسل کے جنگجؤں کی یلغار ہے اور اس کے محافظ اس الجھن کا شکار ہیں کہ

‏”جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں ۰۰۰ انکو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے”

‏اس مسئلے کا اب ایک ہی حل ہے کہ جناح ہاؤس کو اس کے اصل مکینوں یعنی جناح کے اصل وارثوں کے حوالے کیا جائے اور جناح ہاؤس کے محافظوں کو داخلی دروازوں پر تعینات کیا جائے۔

جناح ہاؤس میں ہونے والے واقعے سے ہم سب کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور جو کچھ جناح ہاؤس میں ہوا اس کے ذمے دار ہم خود ہیں.

نئے پاکستان کے نقشے جناح کے زیر استعمال جس میز پر سجائے گئے تھے اس نئے پاکستان کے چشم و چراغ عمران خان کے کارکنوں نے اسے اپنا فرنیچر سمجھ کر جلا دیا تو کیا ہوا؟

‏دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
‏اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے