ن لیگ کے عہدے پھر شریف خاندان میں، شاہد خاقان جا رہے ہیں؟
Reading Time: 2 minutesمسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’جو لوگ اسحاق ڈار کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے پارٹی کے اندر باتیں کر رہے ہیں ان کو پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق شہباز شریف کا یہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور اُن کے ساتھیوں پر براہ راست وار ہے۔ اور اب دونوں شخصیات کے لیے پارٹی میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔
جمعے کو اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ ’جنرل کونسل کے اجلاس کو میں نے کئی بار موخر کرایا۔ ہماری جو مدت تھی وہ پوری ہو چکی تھی لیکن میں کوشش کرتا رہا کہ یہ موخر ہو جائے تاوقتیکہ نواز شریف خود پاکستان تشریف لائیں اور میں یہ امانت ان کے حوالے کر دوں۔‘
’لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا تو اب الیکشن کمیشن کی تلوار لٹک رہی تھی تو اس لیے آج یہ انتخاب کرایا گیا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’نواز شریف جب پاکستان آئیں گے تو سیاسی نقشہ بدل جائے گا۔‘
مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل اجلاس میں شہباز شریف پارٹی کے بلامقابلہ صدر، مریم نواز سینیئر نائب صدر اور اسحاق ڈار صدر اوورسیز منتخب ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم نے جن حالات میں اقتدار سنبھالا تو یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی مالا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان شدید چیلنجز اور مشکلات میں اسحاق ڈار دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ان کی محنت پر دو رائے نہیں۔ اور دن رات وہ محنت کرتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں۔‘
’آئی ایم ایف کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کی شرائط منظور کرنے کے لیے الٹے سیدھے ہو گئے ہیں، کیونکہ پاکستان کا عظیم تر مفاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ شارٹ ٹرم میں ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ملک کو ترقی کی طرف لے کر چلیں۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’میں نے، نواز شریف نے، ہماری پارٹی نے اپنا سیاسی سرمایہ جھونک دیا، سیاست نہیں کی ریاست کو بچایا اور اتنے مشکل حالات میں یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف سے اب بھی ہمارے سینگ پھنسے ہوئے ہیں، دن رات کوشش ہو رہی ہے۔ ہم اس سے نکل جائیں گے۔ اور جو لوگ اسحاق ڈار کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے پارٹی کے اندر باتیں کر رہے ہیں ان کو پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
’اسحاق ڈار دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی صحت خراب کر لی اور انہیں باتیں کی جائیں، طعنے کسے جائیں۔‘