کالم

نواز شریف کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے؟

ستمبر 10, 2023 3 min

نواز شریف کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے؟

Reading Time: 3 minutes

ویسے تو ہمارے اکثر دوست سوشل میڈیا پر نواز شریف کی ماں بہن یعنی ایسی تیسی نہ کر لیں تو بے خوابی کا شکار رہتے ہیں۔ میں بھی نوے کی دہائی میں کچھ ایسا ہی تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں مذہبی نظریاتی تھا۔

سنہ 1997 میں نواز شریف کی جھولی میں قریب قریب تین چوتھائی اکثریت ڈالی گئی تو اس میں اس کا کوئی کمال نہیں تھا، وجہ صرف اسٹیبلشمنٹ کا پیپلز پارٹی کے خلاف نکو نک بھر جانا تھا۔ اس طاقت پر نواز شریف کی اپنے ہی مائی باپ کے ساتھ پنگے شروع کر دینا۔ پھر ایٹمی دھماکے اور سارا کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈال لینا. معاشی طور پر پاکستان کا پاتال میں گر جانا۔ مشرف کے لیے بہترین موقع میسر ہونا۔ پھر وہ طیارہ کیس اور سارا خاندان کا کال کوٹھری میں پہنچ جانا۔ پہلی مرتبہ تھی کہ نواز شریف تھوڑا سا مظلوم محسوس ہوا۔ لیکن ہنوز میرے خیالات نواز شریف کے بارے میں وہی تھے جو آج ہماری اہل یوتھ کے ہیں۔

نواز شریف نہ پہلے کبھی میرا لیڈر تھا اور نہ آج ہے۔ بس ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کچھ دل کو لگا تھا لیکن آج وہ بھی ہوا ہو چکا ہے لیکن یہ سب اس تحریر کا سرے سے موضوع ہے ہی نہیں۔

پچھلے کوئی 15 سال سے فدوی نظریاتی نہیں ہے اور حد سے زیادہ نطریات کی پیروی کو کسی قوم کی پسماندگی کی اولین وجہ خیال کرتا ہے۔
لوگوں کی کامیابیوں میں آج بندہ کیڑے نہیں تلاش کرتا ہے بلکہ وجوہات تلاش کرتا ہے کہ یہ کیسے ہمیں بے وقوف بنا کر امارت کی منزلیں طے کر گیا ہے اور کوئی اس کی وہ بھی نہیں اکھاڑ سکا۔

میاں منشا، جہانگیر ترین یا ملک ریاض کی معاشی کامیابی ہو یا ان میں سب سے اوپر نواز شریف کی سیاسی و معاشی کامیابی، یہ سب میرے لیے ایک تھیسیس کا درجہ رکھتے ہیں۔

موضوع کیونکہ نواز شریف کی عیاری، مکاری اور کلاکاری ہے۔ اسی لیے اس مقدمے کا تفصیلی نہیں بلکہ مختصر فیصلے سے پہلے کچھ تمہید
اوپر بیان کردہ نواز شریف کی صفات کرپشن، چوری، قتل ڈکیتی سے کہیں اہم ہیں۔ ایک منٹ اس کو بھولتے ہیں۔
اور ذکر اس پری وش کا۔

ایک معمولی نوکری پیشہ ہے، تنخواہ ملتے ہی مہاجن کا قرضہ چکاتا ہے، کچھ برے وقت کے لیے کمیٹی ڈالتا ہے اور پھر عیاشی ایسی کہ 20 تاریخ کو جیب خالی اور مہاجن کے چکر۔

ایک چھوٹا کاروباری ہے تو اس کی بھی اوپر بیان کردہ کرتوت 100 فیصد یہی ہے لیکن اس کے سائیکل کا دورانیہ 30 دن کی بجائے 24 گھنٹے کا ہے۔

ایک اچھی وراثت والا اپر مڈل کلاسیا ہے یا اوپر کی کمائی والا کوئی افسر۔ گھریلو خرچہ کا بیس تیس فیصد تنخواہ میں سے نکالتا ہے باقی آمدنی چھوٹی موٹی انویسٹمنٹ جیسے کرایے آڑھت وغیرہ سے آتی ہے۔ چار چھ مہینے میں ایک دو پراپرٹی وغیرہ جیسے سودے بھی ہو جاتے ہیں۔ خوراک کپڑے لتے کی کوئی کمی نہیں ہوتی، اپنے سرکل میں ہوں یا ان کے بچے اپنی مادر علمی میں۔ کامیابی سے اپنی کلاس کو آگے بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں اور کوشش کر کے انگریزی کا کوئی لفظ ادا کرنے سے پہلے منہ میں ایک ابلا آلو رکھ لیتے ہیں۔ پاؤں اپنے چادر سے آگے نہیں پھیلاتے اور نہ ہی اس کا خیال آتا ہے۔

اور بھی بہت ساری اقسام ہوں گی لیکن کرتوت کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک کلاس کو یہاں دانستہ بیان نہیں کر رہا کہ دوست ناراض ہو جائیں گے اور موضوع بھی نہیں۔

اب آتے ہیں ایک بہت ہی کمال کلاس کی جانب اور اکثریت کو اس کلاس سے خار بھی بہت ہوتی ہے۔

اس کلاس کے پاس دس کروڑ روپے ہوں گے تو یہ اس میں سے نہ صرف پچاس کروڑ کا کام کر لیں گے، اوقات اور طاقت کے حساب سے دو لاکھ سے پانچ کروڑ لوگوں کو کھلا بھی دیں گے، کوئی کام رکنے بھی نہیں دیں گے۔50 لوگوں سے تعلقات بھی بنا لیں گے۔ 15 کروڑ اپنے کھیسے میں بھی ڈال لیں گے اور داتا دربار پر دو سو دیگیں بھی چڑھا دیں گے۔
شطرنج کھیلیں گے تو آسانی سے مات قبول کر لیں گے، اپنے پیادے بچا کر رکھیں گے۔ اگلی بساط کے لیے اپنے گھوڑے، وزیر، رخ، فیل سب کچھ اپنے مقام پر چھوڑ جائیں گے۔

یہ کلاس کتنی ہی گندی اور بھیانک کیوں نہ ہو لیکن ہوتی نایاب ہے۔ نواز شریف کی یہی کلاس ہے۔ اب یہ آپ کی صوابدید ہے آپ نے اس کلاس کو کسی کام میں لانا ہے یا اس کی ایسی تیسی کرنی ہے۔

ایسی تیسی کریں گے تو یہ اپنے لوٹے ہوئے پندرہ کروڑ کو دوبارہ انویسٹ نہیں کریں گے بلکہ اس کو سوئٹزرلینڈ یا پانامہ ہنڈی کروا دیں گے۔

لیکن یاد رہے کہ کوئی اپنی کلاس آپ کے تبرا، وعظ یا ضمیر کو جھنجھوڑنے سے شاذ و نادر ہی چھوڑتا ہے۔
نواز شریف کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے