صادق سنجرانی کے بھائی کو 27 سال کے لیے گریڈ 22 کی سرکاری رہائش گاہ الاٹ
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے 33 سالہ بھائی رازق سنجرانی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر کے جمعے کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
رازق سنجرانی کو 22 گریڈ کے سرکاری افسر کے برابر 27 سال کے لیے اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ دیے جانے کے مقدمے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو دفعہ نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے۔
جواب دینے کے بجائے رازق سنجرانی نے عدالتی دائرہ اختیار کا سوال اٹھایا تھا۔
جسٹس بابر ستار کی عدالت نے رازق سنجرانی کو جمعے کے لیے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں کیٹیگری ون رہائش گریڈ 21 ، 22 گریڈ کے افسران کے لیے مختص ہے رازق سنجرانی کو بطور ایم ڈی سیندک میٹلز لمیٹیڈ بلوچستان کیٹگری ون رہائش الاٹ کی گئی۔
رازق سنجرانی کو 2019 سے 2046 تک کے لیے کیٹگری ون رہائش الاٹ کی گئی ہے۔
حکم نامے کے مطابق سیکرٹری وزارت ہاوسنگ، اسٹیٹ آفس، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن کرنے سے ناکام رہے کہ رازق سنجرانی وفاقی حکومت کے ملازم بھی نہیں اس کے باوجود وہ کیسے کیٹگری ون رہائش کے مستحق ہیں؟
عدالتی حکم نامے کے مطابق اسٹیٹ آفس حکام بتانے سے قاصر رہے کہ رزاق سنجرانی ایک 33 ، 34 عمر کا شہری گریڈ 22 کا افسر کیسے ہوسکتا ہے؟ دو دفعہ عدالت نے رازق سنجرانی کو جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیا لیکن جواب نہیں دیا۔
جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ اس لیے عدالتی حکم عدولی پر شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ تاثر ہے کہ رازق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا بھائی ہونے کے ناطے کیٹگری ون رہائش الاٹ کی گئی۔
چیئرمین سینیٹ نے ذاتی مفادات کو فرائض کی انجام دہی پر اثر انداز نہ ہونے دینے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ چیئرمین سینیٹ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بھائی کو سہولت فراہم کریں گے۔
فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے رازق سنجرانی کو جواب جمع کرانے کا موقع دیا گیا تاکہ وہ اقربا پروری کے اس تاثر کو زائل کر سکیں۔
عدالتی حکم نامے میں پوچھا گیا ہے کہ رازق سنجرانی بتائیں کہ وہ کیٹگری ون رہائش گاہ کے کیسے اہل ہیں؟
رازق سنجرانی توہین عدالت کے نوٹس کا جواب بھی جمع کرائیں اور ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
کیس کی مزید سماعت کل 22 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔