قانون کا شارٹ کورس
Reading Time: 2 minutesنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے جبری گمشدگیوں یا لاپتہ افراد سے متعلق خیالات سن کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم اُن کو کچھ زیادہ وقت نہیں دیتے، بلکہ جس قسم کی قانونی توجیہات نگران وزیراعظم لاپتہ افراد کے مسئلے پر دیتے ہیں یوں لگتا ہے انہوں نے یا ان کے وزیر قانون نے این ڈی یو سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اندازہ کریں کہ ایک ملک کاُوزیراعظم کہہ رہا ہے کہ خفیہ اداروں کے شھریوں کو گرفتار کر کے طویل عرصہ غائب رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اِس مُلک کی پارلیمنٹ نے اِس حوالے سے کوئی قانون سازی ہی نہیں کی، یعنی اِس ملک میں شھریوں کو اغوا کر کے غائب کرنے کو قانونی تحفظ دے دیا جاتا تو یہ مسئلہ ہی نہ پیدا ہوتا۔
بلوچستان سے نگران وزیر اعظم ہونے کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کی وجہ سے متعلقہ اداروں کی ماورا آئین اور قانون کاروائیاں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا اِن کاروائیوں کو تحفظ نہ دینا سمجھا جاتا ہے۔
۲۰۱۴ میں اے پی ایس میں دھشت گردی کے واقعے میں ڈیڑھ سو سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے بعد آئین میں پندرہویں ترمیم کے ذریعے شھریوں کو طویل عرصے تک بغیر بتائے یا کہیں پیش کئیے خفیہ مقامات یا انٹرنمنٹ سینٹرز میں رکھا جا سکتا تھا۔
مگر ایسا کرنے کے لئیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی جس کی مدت محض دو سال تھی، اب اگر بقول نگران وزیر اعظم کے کسی قانون کے نہ ہونے کے باعث شھریوں کو اٹھایا جاتا رہے گا تو پھر ایسے ہی ریاستی اختیار کی خاطر آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی تھی؟
اور اب اُس ترمیم کی مدت ختم ہونے کے بعد ریاستی اداروں کو کونسا قانون شھریوں کے اغوا اور انہیں لاپتہ کرنے کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ ایک شھری ہو یا ایک سو۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے بہت سے اینکر اور صحافی حضرات بھی خود کو نگران اینکر و صحافی تصور کئیے بیٹھے ہیں اور اتنا تک نہیں پوچھتے کہ وہ جو ایک انگریز کے وقت کا قانون ہے کہ ہر گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے کیا وہ قانون دفن ہو گیا ہے اور سب سے بڑ کر جو آئین کے آرٹیکل ۹ اور ۱۰ ہیں جو زندہ رہنے اور غیر قانونی گرفتاری کے خلاف اور منصفانہ ٹرائل کا حق دیتے ہیں کیا وہ اُس حلف میں شامل نہیں جس کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر نگران وزیر اعظم نے ایک قسم کھائی تھی؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ہمیں ایک ہینڈسم وزیر اعظم ٹکرا اور اب قابلِ پیشی (presentable) جو کسی سوال پر اپنے جواب کو اُس وقت تک سمیٹ نہیں پاتا جب تک وہ خود اپنے جواب کو نہ سمجھ جائے۔
ہماری قسمت میں تو وہی وزیر اعظم آتے ہیں جو این ڈی یو میں قانون اور سیاست کا شارٹ کورس مکمل کرتے ہیں۔ اب دیکھیں عمران خان، شھباز شریف اور انوار الحق کاکڑ کے بعد نواز شریف اِس معیار پر پورے اترتے ہیں کہ نہیں۔