سپریم کورٹ کا فیصلہ، نواز شریف اور ترین کی نااہلی پر اثرات کیا؟
Reading Time: < 1 minuteپاکستان کی سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے فیصلے میں اپیل کے حق کا ماضی سے اطلاق نہ ہونے پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
متعدد قانونی ماہرین کے مطابق اس کے ذریعے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، آصف کھوسہ، گلزار احمد اور عمر عطا بندیال کے فیصلوں اور غلط قانونی تشریحات کو تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔
تاہم آئینی ماہر اسامہ خاور گھمن کے مطابق اپیل کا حق کا اطلاق ماضی کے فیصلوں پر نہ دینے کے باوجود نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اس کا نقصان نہیں ہوگا۔
اُن کے مطابق پی ڈی ایم کی زیر قیادت پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں ترمیم کی تھی اور اب وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اسامہ خاور کا کہنا ہے کہ ترمیم نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک محدود کرتی ہے۔ اس قانون کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت نااہلی کو پانچ سال کیا گیا جو سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے متصادم ہے جس میں آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین کو الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے آئینی عدالت کو اس قانون کی سیکشن 232 میں ترمیم کو غیر آئینی قرار دینا ہوگا۔
متبادل کے طور پر سپریم کورٹ، پاکستان بار کونسل کی اس پٹیشن کو سماعت کے لیے مقرر کر سکتی ہے جو احسن بھون کے ذریعے دائر کی گئی تھی جس میں اراکین پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا گیا تھا۔
بعض قانونی ماہرین کے مطابق نواز شریف کی نااہلی کا معاملہ اگلے عام انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد سرخیوں میں آئے گا جب اُن کو چیلنج کیا جائے گا اور پھر عدالتیں اس کا حتمی فیصلہ کریں گی۔