لیکن باقیوں اور عمران خان میں فرق
Reading Time: 5 minutesدو دن سے اچھے خاصے ہیوی ویٹ و قابل تعظیم بزرگانِ لبرلزم کا سیاسی مؤقف سامنے آیا۔ میں چونکہ دودھ جلیبی کھانے میں مصروف تھا لہٰذا بہت انجوائے کیا۔
آج سے ایک بار پھر آفس کا ناغہ ختم ہوچکا ہے لہٰذا حالیہ سیاسی معاملات پر کچھ بات کرنے کی جسارت کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی دودھ جلیبی ہضم ہوچکی ہے سو ہر دو ٹاسکس کے درمیان کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔
سب سے پہلا اعتراض جو اکابرینِ امت کی جانب سے پیش ہے وہ یہ کہ تحریک انصاف کے خلاف جاری سیاسی انجینئیرنگ کا منبع فوج ہے اور یوں یہ سیاسی انجینئیرنگ اپنی حرام اصل کے مطابق حرام ہی ٹھہرتی ہے۔ اس کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ تحریک انصاف بذات خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ جواب الجواب یہ پیش ہوتا ہے کہ اگر چارپائی کی ترتیب یہی رکھی گئی تو پھر ہر دوسری جماعت یا تو آمریت کی پیداوار ہے یا اس کی مدد سے پروان چڑھی ہے۔
فوج کی سیاسی مداخلت ہر صورت غلط ہے۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ فوج کے اغلاط کا حل کیا ہونا چاہیے؟ فوج سپریم کورٹ کو ہینڈل کر لے، وزیراعظم اپنا لگا دے، پارلیمان اپنی بٹھا دے تو آگے کیا ہونا چاہیے؟ یہ تحفے قبول کر لیں؟ کیا ان کے خلاف جانا یا انہیں undo کرنا کسی حد تک یا کس حد تک قابل قبول ہے؟ کیا انہیں undo کرنے کا ڈی فیکٹو مطلب یہ ہوگا کہ نیا کھلاڑی مارکیٹ میں لایا جا رہا ہے؟ کیا ثاقب نثار، بندیال اور پھر اعجاز الاحسن کا تسلسل قبول کر کے خاموش ہوجانا چاہیے تھا؟ کیا فیض حمید کو آرمی چیف بنا کر اگلے دس سال خان صاحب کے ساتھ چلتا رہنا جمہوریت کہلایا جاتا؟
ظاہر ہے، ایسا نہیں۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسے مناسب وقت پر روک لینا کیونکر اتنا واجب الٹسوے بہانا عمل ٹھہرا؟
ایک مثال پیش خدمت ہے جس پر جرح یا جس کے غلط ہونے کی تاویل کے لیے میرے کان کھلے ہیں۔
آئین کی شق یا دفعہ ۲۹۵ کو اکثر حلقے درست نہیں سمجھتے۔ کل کو مشرف نما آمر، چند انسٹال شدہ جج اور ایک ۲۰۱۸ قسم کی پارلیمان اسے آئین سے حذف کر دیتی ہے تو کیا اسے درست سمجھا جائے گا یا غلط، کیونکہ کئی احباب کے نزدیک یہ عمل درست بلکہ شاید مستحب ہوگا، طریقہ کار بھی ممکن ہے آئینی ہو مگر ایسا کرنے والوں کی اپنی قانونی حیثیت متنازعہ ہی ہوگی، بالکل اسی طرح جس طرح خان صاحب کی حکومت، ثاقب نثار تا بندیال عدلیہ اور فیض حمید کی آئی ایس آئی متنازعہ رہی۔
یعنی ایک ایسے ملک میں جہاں آمریت کسی نہ کسی صورت میں تقریبا ہمیشہ ہی غالب رہی ہے، وہاں کسی بھی عمل جس میں آمر یا اسٹیبلشمنٹ ملوث رہی ہو کے حق یا باطل ہونے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
آپ حجاب کی چوائس کو کنڈیشننگ کا شاخسانہ کہتے ہیں۔ حجاب اگر معاشرے میں موجود کنڈیشننگ کی دلیل کے راستے غلط ہے تو پانچویں نسل کے مجاہدین کے راستے پیدا کی گئی حبِ عمرانی کون سے اصول کے تحت درست مان لی جائے؟
کل کو اگر ریفرنڈم قسم کی مہم جوئی کے ذریعے شق ۲۹۵ کو مزید سخت کر دیا جاتا ہے تو اس کو ریورس کرنے کا کون سا راستہ قابل قبول ہو سکے گا؟ آپریشن پاشا کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ، صحافت اور رائے عامہ پر مخصوص سیاسی ذہن کا قبضہ ہو چکا ہے جو اکثریت میں نہیں تھا مگر جس پر پانچویں نسل کی جنگ کے ذریعے اکثریت میں لایا گیا، تو اب اسے واپس اپنے اصل مقام پر لانے پر شور کیوں اور کیسا؟
دلیل ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے بغیر نظام اس طریقے سے نہیں چل پائے گا۔ میں اس دلیل سے یکسر قائل ہوں اور اسے درست مانتا ہوں۔ تاہم میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اس دلیل پر اصرار کرنا over simplification کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں، خان صاحب کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد انتخابات کے معاملے پر خان صاحب کو بارہا مذاکرات کی دعوت دی گئی جو خان صاحب نے مسترد کی۔ عمران خان کا فوج کی طرف سے عطا کردہ بیانیہ ہی اپنے علاوہ سب کو چور اور ڈاکو کہنے پر مبنی ہے۔ کیا خان صاحب اس پر راضی ہوئے؟ چلیے اسے چھوڑ دیتے ہیں، آج ابھی اس وقت عمران خان جیسے انا پرست اور احمق انسان سے آپ کو امید ہے کہ وہ پوری نیک نیتی سے باقی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوگا؟
ایک دلیل یہ بھی سننے کو ملی کہ خان صاحب سے عوام بددل ہو چکی تھی اور اگر ان کی حکومت کو چلنے دیا جاتا تو عوام اگلے انتخابات میں ووٹ کے راستے انہیں گھر کی راہ دکھا دیتے۔ یہ دلیل بھی ایک اوور سمپلفکیشن ہے کیونکہ اگلے صدارتی نظام کی مارکیٹنگ شروع کر چکے تھے، ۲۰۳۰ تک عمران خان کے بطور حکمران ہونے پر بغلیں بجانا شروع کر چکے تھے، اگلا آرمی چیف فیض حمید اور اگلا چیف جسٹس اعجاز الاحسن ہونے کی بابت ہم سن چکے تھے۔
پھر آپ کو کیوں لگتا ہے کہ بندیال، اعجاز الاحسن، مظاہر نقوی اور منیب اختر کے عدلیہ میں، خان صاحب کے حکومت میں اور فیض حمید کے فوج میں ہوتے عوامی ووٹ کا تقدس مان لیا جاتا؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ اے آر وائے اور بول جسے آپ پروجیکٹ پاشا کے کھاتے ڈالتے ہیں، انسٹال کردہ صحافیوں کے ذریعے اپنا کام مزید زور و شور سے جاری نہ رکھتا؟
میں حقیقتا اس بات کو مانتا ہوں کہ ۹ مئی کے بعد سے فوج کو وہ سپیس لینے کا موقع مل گیا جو ۸ مئی تک تقریباً ناممکن تھی۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن آپ یہ کیوں نہیں دیکھ پا رہے کہ فوج اسی نواز شریف کو واپس لانے پر مجبور ہے جسے وہ خود تین بار اقتدار سے ہٹا چکی ہے، جس سے تین بار اقتدار چھینا گیا۔ ہمارے اندر کا سول سپریمیسی چیمپئن اس پر نالاں کیوں ہے کہ فوج نواز شریف کو تین بار نکالنے کے بعد اسے چوتھی بار آنے دے رہی ہے؟ اور اگر فوج تین بار اسے نکال کر بھی واپس لانے پر بادل نخواستہ مجبور ہے تو آپ کے خیال سے فوج خود کیونکر ہو سکتی ہے؟
مجھے اچھی خاصی حیرت ہوئی اس اوور سمپلفکیشن پر۔ اب سے چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف کے مقلدین کے سوا کون نہیں چاہتا تھا کہ ایک وسیع تر بلکہ وسیع ترین چارٹر آف ڈیموکریسی ہو۔ ممکن ہے اب کچھ مقلدینِ عمرانی سمجھ گئے ہیں لیکن میرا گمان یا بدگمانی کہہ لیجئے کہ ابھی ووٹ کرایا جائے تو بھی مل کر بیٹھنے کی سب سے زیادہ مخالفت تحریک انصاف کے مقلدین کی جانب سے ہوگی۔ یہ باتیں فرض کرنے کو بہت حسین ہیں مگر حقیقت کیا آپ جانتے نہیں کیا ہے؟
آپ کو لگتا ہے آج خان صاحب کو باہر نکالا جائے تو کل وہ ایف سیون کابل ریسٹورانٹ پر میاں صاحب اور زرداری صاحب کے ساتھ بیٹھ کر چربی کی بوٹی پہ نیا چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر دے گا؟ اچھا اسے بھی رہنے دیجئے، آپ کو لگتا ہے کل فوج کسی نئے چارٹر آف ڈیموکریسی کے خلاف اتحاد دیکھ کر نواز شریف، زرداری اور عمران خان میں سے کسی ایک کو اقتدار کی لالچ دے اور عمران خان باقیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے انکار کر دے گا؟
حضور، میرے نزدیک تو یہ سیاسی سروائیول کی جنگ تھی جس میں طریق واحد خان صاحب کو سائیڈ کر کے باقی معاملات آپس میں طے کرنا تھا، اور پھر واپس اسی راہ پر ہلکے ہلکے چل نکلنا جس کے بعد ہدف وہی فوج کو آہستہ آہستہ one bit at a time حکمت عملی کے ذریعے پیچھے ہٹانا رہ جاتا۔
یسوع مسیح والی اخلاقیات پر اصرار کو خواہش کے زمرے میں تو لایا جاسکتا ہے، عملا یہ فی الفور ممکن نہیں۔ اس کا واحد طریقہ one bit at a time آگے بڑھنا ہی ہے جسے عمران خان جیسا شخص کسی بھی وقت ۹ مئی برپا کر کے تباہ کر سکتا ہے، کر چکا ہے۔ ایسے میں عمران خان کو سسٹم میں رکھنا اس کے سروائیورز کے لیے کتنا کوئی عملی ہے.
یہ بہرحال اوپن اینڈ شٹ کیس نہیں جس پر اختلاف کرنا پولیٹکلی کریکٹ ہونے کا معیار بنا دیا جائے۔ یقینا باقی سب کو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی لے کر آئی لیکن باقیوں اور عمران خان میں بھی اگر کوئی فرق نظر نہیں آتا تو بھی اختلاف پر اتفاق کر لیتے ہیں۔