اہم خبریں

فوج ریاست کا ایک مقدس بازو ہے: فیض آباد کمیشن رپورٹ

اپریل 16, 2024 4 min

فوج ریاست کا ایک مقدس بازو ہے: فیض آباد کمیشن رپورٹ

Reading Time: 4 minutes

فیض آباد میں سنہ 2017 میں دیے گئے تحریک لبیک کے دھرنے کے پیچھے موجود عناصر کی نشاندہی کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج ریاست کا ایک مقدس بازو ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس وقت کے میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو دو فریقوں کے درمیان ثالث کے طور پر معاہدے پر دستخط کرنے تھے جو آئی ایس آئی کے سربراہ اور آرمی چیف کی اجازت سے ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے معاہدے پر اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیراعظم نے بھی اتفاق کیا تھا۔

کمیشن نے کہا ہے کہ مکمل طور پر سویلین معاملات میں فوج یا اس سے منسلک ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی شفاف شبیہہ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فوج ریاست کا مقدس بازو ہے اس لیے تنقید سے بچنے کے لیے ادارے کو عوامی معاملات میں ملوث نہیں کیا جا سکتا۔

کمیشن کے مطابق مذاکرات اور معاہدے پر دستخط کا یہ کام انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) اور سول ایڈمنسٹریشن کو سونپا جا سکتا تھا۔

کمیشن نے تجویز کیا ہے کہ اس سے نہ صرف سویلین سیٹ اپ کا اعتماد بڑھے گا بلکہ سیاسی اور دیگر رائے عامہ کے رہنما بھی اسے سنجیدگی سے لیں گے۔

کمیشن نے جنرل ر فیض حمید کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ اُس وقت کی حکومت نے کیا اور وزیراعظم شاہد خاقان نے اس کی ذمہ داری لی ہے اور اپنے بیان میں اس کی تصدیق کی ہے۔

کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا اور یہ بھی سفارش کی کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کے انتظامی اختیارات کے بارے میں فیصلے پر ازسرنو غور کرئے۔کمیشن نے کہا ہے کہ فیڈرل حکومت میں وفاقی سیکرٹری کیساتھ وفاقی وزیر کو بھی مالی و انتظامی اختیار دیا جائے۔ وفاق میں چیف کمشنر کو خود مختار کیا جائے۔

فیض آباد دھرنا کمیشن نے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ انٹرنل سیکورٹی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور دھرنا ختم ہونے پر مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے ویڈیوز میں دکھائی دینے والے اس وقت کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل نوید اظہر حیات کو کلین چٹ دی ہے۔

کمیشن نے سفارش کی کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے اور انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دئیے جائیں۔کمیشن نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں احتجاج اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ مخصوص فورس قائم کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی و سرکاری شخصیت نے کسی ایجنسی یا ریاستی ادارے کے دھرنے سے متعلق کوئی بیان یا ثبوت نہیں دیا لہٰذا کمیشن دھرنے سے کسی ادارے یا ریاستی اہلکار کا تحریک لبیک کے دھرنے کو منظم کرنا ثابت نہیں کرسکا۔

کمیشن نے ملک میں انٹیلی جینس اداروں کے بارے میں قانون سازی کی سفارش بھی کی ہے۔کمیشن نے کہا ہے کہ فوج ریاست کا مقدس ادارہ ہے اسے تنقید سے بچانے کے لیے سول امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اس سے ادارے پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔ کمیشن نے انٹرنل سیکورٹی کے حوالے سے آئی بی کو لیڈ رول دینے کی سفارش بھی کی ہے جبکہ اس وقت کے آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز کو کمیشن کے سامنے غلط بیانی پر مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کرنے پر تادیبی کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے۔

کمیشن کو ذمہ داروں کو نامزد کرنے کا کہا گیا تھا تاہم کمیشن نے زمہ داروں کا نام لینے کی بجائے وفاق اور پنجاب کو رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ لوگوں کے خلاف کاروائی کا کہا ہے۔

رپورٹ میں تحریک لبیک پاکستان کے خلاف سال 2017 میں دھرنے کے سلسلے میں درج مقدمات کو واپس بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔

پولیس سروس کے خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اختر علی شاہ کمیشن کے سربراہ تھے جبکہ سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر حاضر سروس افسر خوشحال خان کو کمیشن کا رکن بنایا گیا تھا۔

کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ لف دستاویزات میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، آئی بی کے موجودہ سربراہ فواد اسداللہ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، آئی بی کے سابق سربراہ آفتاب سلطان، سابق آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز، سابق ڈی جی رینجرز نوید اظہر حیات اور دیگر کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ووٹ بینک بچانے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہ کی جو قابل تعریف نہیں۔ یہ ذمہ داری سے انحراف اور کنڈکٹ مس ہے لہٰذا قصورواروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔

کمیشن نے کہا کہ دہشت گردوں کیساتھ معاہدے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس مسئلے کا مستقل حل ہونا چاہیے۔کمیشن نے سفارش کی کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے اور انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دئیے جائیں۔

کمیشن نے اس وقت تحریک لبیک سے معاہدے کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے یہ معاہدے مسئلے کا عارضی حل ہوتے ہیں مستقل نہیں۔کمشن نے کہا کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے لہٰذا ضروری قانون سازی اوررولز و ایس او پیز کی ضرورت ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے