پاکستان

ایک ڈالر 245 روپے کا، سٹیٹ بینک نے کیسے 278 پر رکھا؟

اپریل 26, 2024 2 min

ایک ڈالر 245 روپے کا، سٹیٹ بینک نے کیسے 278 پر رکھا؟

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کے مرکزی بینک نے رواں مالی سال کے دوران مارکیٹ سے 5 ارب ڈالر سے زائد کے ڈالرز خریدے جو ایک ریکارڈ رقم ہے۔

ڈالر کی یہ خریداری پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر کے دو تہائی کے برابر ہے اور یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے حجم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں مرکزی بینک کی مداخلت نے بھاری قرضوں کی ادائیگی کے باوجود غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو 8 ارب ڈالر پر مستحکم رکھا ہے، وہیں اس نے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں 278 روپے تک کم رکھنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔

آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق اگر سٹیٹ بینک کی مداخلت نہ ہوتی تو ڈالر 250 روپے سے نیچے ہونا چاہیے تھا۔

حکومتی اور سٹیٹ بینک کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ یہ خریداری غیرملکی قرضوں کی بڑی رقوم کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر کو تین ارب ڈالر سے نیچے جانے سے روکنے کے لیے کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے ڈالرز خریدے اور یہ اب بھی خریدے جا رہے ہیں۔

ایک ذریعے نے بتایا کہ خریداری کا کل حجم تقریباً ساڑھے پانچ ارب ڈالر تھا۔

سٹیٹ بینک غیرملکی کرنسی کی خرید و فروخت سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتا ہے۔

اس نے انٹربینک مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کو چھپا رکھا ہے، جس میں کم از کم پانچ ارب ڈالر کی خریداری کے لیے 1.4 کھرب روپے سے زیادہ کا لین دین شامل ہے۔

مرکزی بینک کا ڈالرز خریدنا 3 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے حجم سے زیادہ ہونا نئی مثال ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہونے کی ایک وجہ اضافی ڈالرز کا حصول اور ذخائر کو بڑھانا تھا۔ تاہم پاکستان کو اب تک صرف 9.7 بلین ڈالر کے غیرملکی قرضے ملے ہیں، جو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے