اہم خبریں دلچسپ و عجیب متفرق خبریں

وہ ملک جہاں طلاق ہونے پر عورتیں پارٹیاں کرتی ہیں

مئی 21, 2024 5 min

وہ ملک جہاں طلاق ہونے پر عورتیں پارٹیاں کرتی ہیں

Reading Time: 5 minutes

کیا طلاق واقعی بری ہے؟

موریطانیہ ایک عرب ملک مانا جاسکتا ہے، مگر عرب دنیا میں طلاق کے بارے میں موریطانیہ کا تصور باقی عرب ممالک جیسا نہیں ہے۔
دنیا اپنی روایات و سماجیات میں اپنے ہی الگ رنگ رکھتی ہے جسے دوسرے خطے میں بیٹھے لوگ اپنی نظر سے یا حیرت سے دیکھتے ہیں، موریطانیہ میں جب کوئی شادی ناکام ہوجاتی ہے تو عموما وہاں پر طلاق کے فورا بعد لڑکی والوں کی طرف سے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں بیوی کو طلاق ہو تو خواتین اس شوہر سے چھٹکارے کے موقع پر پارٹیاں منعقد کرتی ہیں، جو شادی شدہ زندگی کی قدر نہیں کرتا اور اسے برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔ موریطانیہ میں عجیب بات ہے کہ مطلقہ عورت کنواری لڑکیوں سے زیادہ بولتی ہے، بہتر رکھ رکھاؤ کے ساتھ جیتی ہے اور اس کا جہیز بڑھ جاتا ہے، کیونکہ وہ اسے شادی شدہ زندگی میں زیادہ بالغ اور تجربہ کار اور شادی شدہ زندگی کو سنبھالنے کے قابل سمجھتے ہیں، موریطانیہ میں عورت کو اپنی شادیوں کی تعداد پر فخر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، وہاں خواتین اپنی خوبصورتی، امتیاز اور جاذبیت کا یہ ثبوت سمجھتی ہیں،جبکہ اس کے مقابل ایک طلاق یافتہ مرد کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ دوسری بیوی تک رسائی اب مرد کے لئے خاصی مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ اس سماج میں مطلقہ مرد کو ازدواجی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔

موریطانیہ ہی میں نکاح کے لیے ’کوئی سابقہ لاحقہ‘ نہیں کا اصول بھی اپنایا جاتا ہے جس کے تحت عورت نان نفقے کے حق سے دستبردار ہونے کے ساتھ طلاق کا اختیار اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان لڑائی کی صورت میں اگر بیوی ناراض ہو کر گھر سے چلی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شادی اور خاندان کے تصور سے شوہر اور بیوی کی ناواقفیت اور ازدواجی زندگی کے لیے ان کی ذمہ داری کا فقدان، سماجی رسومات کے علاوہ جو کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بہت سے لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ شادی ایک آسان اور سادہ معاملہ ہے۔ اور جب وہ اس کی ذمہ داریوں سے حیران ہوتے ہیں، تو وہ الگ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اصل میں معاشرتی رسوم وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے عورتوں پر اس لیے ظلم یا حق تلفی ہوتی ہے کہ معاشرتی رسوم اور اقدار عورتوں کو شادی سے پہلے مادی معاملات پر بات کرنے سے روکتی ہیں، جیسے جہیز، مکان اور نفقہ جیسی شرائط، ان پر بات کرنے پر معاشرہ اسے ایک بڑی بے عزتی سمجھتا ہے، اور اس طرح طلاق شدہ عورت کو موخر جہیز کی وصولی، گھریلو سامان کی بحالی، اور اس سے بچے کی کفالت سے فائدہ اٹھانے سے روکتی ہے۔

موریطانیہ میں یہ مسائل تو ہیں مگر اس کے ساتھ موریطانیہ کا عائلی زندگی میں طلاق کا معاملہ عرب ممالک تو کیا یورپین ممالک سے بھی حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے، مزید حیران کر دینے والی بات تو یہ ہے کہ یہ شرح آج کی نہیں بلکہ موریطانیہ معاشرہ قدیم زمانے سے ہی طلاق کا عادی ہے، وہاں لوگ طلاق کے عمل کو ایک عام رویہ سمجھتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات ہے کہ جیسے ہمارے ہاں کے کئی ارسطو ساختہ بزرجمہر عورت کی تعلیم کو طلاق لینے ایک بڑا سب۔ گردانتے ہیں، تو موریطانیہ میں خواتین کی تعلیم اور ان میں ناخواندگی کی شرح حیرت انگریز طور پر الگ کہانی بیان کرتی ہے، وہاں ناخواندہ عورتیں زیادہ طلاق کی حامل ہیں جب کہ پڑھی لکھی خواتین میں طلاق کی شرح کم ہے، اس کے علاوہ مرد و زن کے مقابل خواتین کی تعلیم کی سطح مردوں میں 35% کے مقابلے میں 53.2% ہے، طلاق ہونے کی ایک بڑی وجوہات میں تعدد ازدواج کا تصور بھی ہے اسی وجہ سے وہاں پر عرب خواتین میں طلاق کی شرح زیادہ ہے، جو حبشی خواتین نیں بنسبت کم ہے، جو تعدد ازدواج کو قبول کرلیتی ہیں، اور جہیز کی زیادہ قیمت کی ڈیمانڈ جو بھی قبول کرلیتی ہیں، موریطانیہ کی عرب کمیونٹی میں تعدد ازدواج کی شرح 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ موریطانیہ میں نیگرو کمیونٹی میں یہ 39% تک پہنچ جاتی ہے۔

یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے موریطانیہ کا معاشرہ طلاق کی قبولیت کی گنجائش کہیں زیادہ رکھتا ہے، ویسے بھی مردوں کی طرف سے طلاق کی آسانی نے خواتین کو اپنی شادی کے پہلے دن سے ہی اس کے ہونے کے امکان کے لیے تیاری کرنے پر آمادہ کیا ہوا ہے، اور موریطانیہ کا معاشرہ خواتین کو طلاق پر خوشی کی کچھ رسومات ادا کرنے کے ذریعے طلاق کو قبول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ بلکہ وہاں اسے اخلاقی طور پر اس کی تلافی کرنا سمجھتے ہیں، جسے مقامی طور پر ایک رواج کے طور پر جانا جاتا ہے، ویسے بھی موریطانیہ میں عرب خواتین میں تعدد ازدواج کے رجحان کو موریطانیہ کے معاشرے میں خواتین کے وقار کے روایتی نقطہ نظر کے مطابق پہلی بیوی کی توہین اور اس کی عزت کی کمی سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ موریطانیہ میں کچھ روایتی جج مرد کی دوسری شادی پر عورت کو اس کے شوہر سے بآسانی طلاق دلوا دیتے ہیں۔ طلاق کے رجحان کے پھیلاؤ کے برعکس، طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرنے کے خواہش مند مردوں کی تعداد موریطانیہ میں بکثرت موجود ہے، جہاں پہلی طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرنے والی طلاق یافتہ خواتین کی شرح 72.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، دو بار طلاق والی خواتین میں 20 فیصد، اور تین بار طلاق لینی والی خواتین کی 6.7 فیصد کا تناسب موجود ہے، اس کے علاوہ پانچ یا اس سے زیادہ شادیاں کرنے والی خواتین کی تعداد 1.5 فیصد ہے۔

موریطانیہ کے سماجی محققین مردوں کی طلاق یافتہ خواتین سے شادی کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہاں کے مردوں کو یہ احساس ہے کہ موریطانیہ کے معاشرے میں طلاق زیادہ تر معاملات میں خواتین کی خامیوں یا در پیش مسائل کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ مردوں کے مزاج اور لا پرواہی یا رویوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مردوں میں خاندانی ذمہ داری کے احساس کی عدم موجودگی نے موریطانیہ میں طلاق یافتہ خواتین سے شادی کے مطالبے کو "مطلوبہ طلاق یافتہ عورت” کہنے پر اکسایا طلاق کے رجحان نے طلاق یافتہ خواتین کو تعداد کو بڑھایا ہے، اس کے علاوہ مرد وہاں پر میچیور خواتین کو پسند کرتے ہیں۔ ( ہمارے خطیب و بزرجمہروں کی طرح کم عمر بچیوں پر رال نہیں ٹپکاتے)۔ وہاں بھی کچھ خواتین اس وجہ سے کہ وہ نوجوان خواتین ہیں جنہیں ڈر ہے کہ شادی کی ٹرین چھوٹ جائے گی، یا اس وجہ سے وہ ضرورت کے تحت مطلب غریب عورت عام طور پر امیر آدمی کی خواہش کے تابع چھپ کر شادی کرلیتی ہیں۔ اس لئے ریاست نے وہاں پر قانونی طریقہ کار نافذ کرکے خفیہ شادیوں کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں ایک سرکاری سول اسٹیٹس آفیسر کے سامنے شادی کا معاہدہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں میاں بیوی کے بارے میں تمام معلومات( بشمول ان کی پچھلی شادیاں) درج کی جاتی ہیں۔

نوٹ :
1- موریطانیہ میں ایک بازار ہے جسے "طلاق یافتہ خواتین کا بازار” کہتے ہیں، ہمارے ہاں کئی یوٹیوبر ڈھکن اس بازار کے نام کو بطور طلاق یافتہ خواتین کا بازار کہہ کر اس طور پر پیش کرتے ہیں جیسے وہاں پر طلاق یافتہ خواتین کی خرید و فروخت ہوتی ہے، حالانکہ وہاں کئی ایسی طلاق یافتہ خواتین دکانداری کرتی ہیں، مگر یہ بھی اس کی وجہ شہرت نہیں ہے اس کی اصل وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ خواتین جن کی طلاق ہو جاتی ہے وہ اپنے جہیز کا سامان اس بازار میں بییچ دیتی ہیں تاکہ اپنے شوہر سے وابستہ تمام یادوں کو ختم کردیا جائے۔ یہ پرانے گھریلو سامان کا بازار ہے۔

2- موریطانیہ کے مقابلے میں اب آپ پاکستان بزرجمہروں کی اپروچ دیکھ لیں، کہ وہ شادی کی عمر اور شادی کی ترغیب کن گھٹیا بنیادوں پر ذلیل کرنے کے ضمن میں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضرورت سے زیادہ فکر مند طبقات کو معلوم ہو کہ اسی اسمان اور اسی زمین پر موریطانیہ جیسے ملک بھی موجود ہیں۔ اس لئے لوگوں کی زندگیوں کو فیصلے لوگوں کو خود کرنے دیں۔

تحریر : منصور ندیم

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے