شمسی/سولر پالیسی رجعت پسندانہ، گھاٹے کا سودا کیوں ہوگا؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں سولرسیل ٹیکنالوجی کا استعمال ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے اس ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کی جس پر اب کافی تنقید کی جا رہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ تنقید بجا ہے اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق حالیہ پالیسی حکومت کی رجعت پسندانہ سوچ کی عکاس ہے۔
پاکستان میں ہمیں اپنی من پسند پالیسیوں کے بجائے دیکھنا ہو گا کہ ڈیٹا کیا ظاہر کرتا ہے۔
حالیہ پالیسی کے تحت شہریوں کو سولر نیٹ میٹرنگ سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم کر دیا گیا ہے۔
یہ بحث عبث ہے کہ نیٹ میٹرنگ سے کون زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ نیٹ میٹرنگ سے فائدہ اٹھانے والے صارفین کی تعداد بہت کم ہے۔
لمز یونیورسٹی سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۵ تک سولر ٹیکنالوجی کی تنصیب سے ملک میں بجلی اضافی مقدار میں موجود ہو گی۔ اور جیسے جیسے لوگ سولر ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہے ہیں ملک کے گرڈ کی بجلی میں اضافہ بڑھتا جائے گا۔
اب چونکہ حکومت سولر نیٹ میٹرنگ کے تحت حاصل ہونے والی بجلی گرڈ کی نسبت مہنگے نرخوں پر خرید رہی تھی تو حکومت اس خدشے کا شکار ہو گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ صارف سولر ٹیکنالوجی کی طرف چلے گئے تو گرڈ مسائل کا شکار ہو گا۔ اور لوگ گرڈ سے بجلی خریدنے کے بجائے گرڈ کو بیچنا شروع کر دیں گے۔
اصل مسئلہ اب یہ ہے کہ حکومت نے جو معاہدے آئی پی پیز (بجلی کے نجی کارخانوں) کے ساتھ کیے ہیں ان میں کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں جو ادائیگی حکومت کو کرنا ہے وہ بہرحال ہر صورت کرنا ہی ہے۔
کچھ انرجی اکانومسٹ کا خیال ہے کہ سولر انرجی ملک میں صرف امیر لوگ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ جو انوسٹمنٹ سولر کے لیے درکار ہے وہ غریب لوگوں کی پہنچ میں نہیں ہے اور ان کا مکمل انحصار گرڈ کی بجلی پر ہے۔ جب امیر گرڈ کے بجائے اپنی بجلی پیدا کریں گے بلکہ گرڈ کو واپس بیچیں گے تو گرڈ کی capacity payments کا سارا بوجھ غریب صارف پر پڑے گا۔ حکومت کو غریب صارف کو بجلی مزید مہنگا بیچنا پڑے گی۔
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملے میں مسئلے کا بڑا حصہ سولر ٹیکنالوجی کا نہیں بلکے آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے غلط معاہدوں کا ہے۔ توانائی کے ماہرین کو اس مسئلے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے جو کہ اس پورے نظام میں اضافی پیداوار کا باعث ہے۔
سنہ 2000 کی دہائی کے وسط میں مغربی آسٹریلیا بھی ایسی ہی ایک صورتحال سے دوچار ہوا تھا۔ مغربی آسٹریلیا کو بجلی کے لیے یونٹ 85 ڈالر فی میگاواٹ فی گھنٹہ ادا کرنا پڑا حالانکہ مشرقی آسٹریلیا میں $35 فی میگاواٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی فروخت کی گئی جس کی اصل وجہ نظام میں اضافی سپلائی کا آ جانا تھا۔
توانائی کے نظام میں شمسی توانائی کی شمولیت کو کم کرنا بنیادی طور پر ایک رجعت پسندانہ پالیسی ہے۔ کوئی بھی ملک اس دور میں مستقبل کے ٹیکنالوجی کے خلاف پالیسیز بنائے گا تو وہ گھاٹے کا سودا ہو گا۔
عمر فاروق۔ کینیڈا
صاحبِ تحریر متبادل توانائی میں پی ایچ ڈی ہیں۔