مقتدر اشرافیہ مکمل ناکام مگر
Reading Time: 3 minutesبعض دوستوں کا ماننا ہے کہ یہ کاشن دینا کہ پاکستان کی گاڑی بہت تیزی سے ایک بند گلی میں جا رہی ہے اور اس کے ٹکرانے کے امکانات لگ بھگ پچانوے فیصد ہیں قنوطیت ہے اور منفی سرگرمی ہے۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ عمران خان کا سیاست میں کوئی مستقبل نہیں،ان کو یہ بھی یقین ہے کہ کلاسیکی سیاستدان یعنی نون لیگ اور پی پی پی کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے۔
میری بدقسمتی ہے کہ میں اپنے اپ کو ان سے متفق نہیں پاتا۔
اگر تو پولیٹیکل سائنس واقعی سائنس ہے تو اس کے کوئی سائنسی اصول تو ہوں گے جن پر ان اندازوں کا دارومدار ہو؟
میں دوستوں جتنا صاحب مطالعہ تو نہیں لیکن عملی طور پر بہت سے معاشروں کا ارتقائی عمل بہرحال قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے،میں دوستوں جتنا ذہین بھی نہیں ہوں کہ بہت زیادہ تیقن کے ساتھ کسی بات پر ڈٹ کر کھڑا رہوں لیکن پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ سو میں سے نوے اعشاریے یہ بات ظاہر کر رہے ہیں کہ ہم نے ابھی تک تو معاشی،سیاسی اور معاشرتی سطح پر اس صورتحال کا ادراک کیا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے اور نا ہی اصلاح کا کوئی قدم ہی اٹھایا ہے۔
سیاسی سطح پر پاکستان میں اس سے زیادہ پولرائزڈ معاشرہ کم از کم میں نے تو اپنے شعوری چالیس سال میں نہیں دیکھا،آئین لکھا ہوا ہے لیکن پاکستان کا ایک بھی سیاسی لیڈر اس آئین کی پابندی کرنا ضروری نہیں سمجھتا،اسٹیبلشمنٹ کسی انسانی حق کو نہیں مانتی،ریاست کی نظر میں سب شہری برابر نہیں ہیں،کوئی ادارہ بھی ڈیلیور نہیں کر رہا،کنٹرولڈ جمہوریت،ڈکٹیٹر شپ اور ہائبریڈ جمہوریت میں سے انتخاب کی کوشش کی جاتی ہے،جو عوامی نمائندے پارلیمان میں جاتے ہیں دراصل وہ عوامی نمائندے ہیں ہی نہیں،بلدیاتی الیکشنز اور اختیارات کا نچلی سطح پر تقسیم کیا جانا کسی کا مطمع نظر ہے ہی نہیں،سو کالڈ جمہوری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے ہی نہیں اور سب سے بری بات یہ ہے کہ ان برائیوں کو برائی سمجھنا بھی ابھی شروع نہیں کیا گیا۔دنیا میں سب سے زیادہ آؤٹ آف سکول بچے پاکستان میں ہیں۔
معاشرتی سطح پر تو ہم پاتال سے بھی نچلے حصے میں موجود ہیں،ہزاروں یونیورسٹیوں کے مقابلے میں لاکھوں مدارس موجود ہیں جو اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کو اپنے فرقے کے حق میں دلائل سے لیس کرکے مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں گویا صاف پانی کے ایک انچ کے پائپ کے مقابلے میں بیس انچ کا گندے پانی کا پائپ جیت رہا ہے۔
سکولز کا کیرکلم فرسودہ ہے،دنیا کے ساتھ تال میل نہیں ہے،لوگ اپنی بچیوں کو پبلک ٹرانسپورٹ پر سکول کالج نہیں بھیج سکتے،خواتین کے حقوق کے معاملے میں ہم بدترین معاشروں میں سے ایک ہیں۔
معاشی معاملات کو سوچیں تو خوف آتا ہے۔
آمدن کا پینسٹھ فیصد قرض اور سود کا اور خرچ پورا کرنے کے لئے آٹھ ہزار ارب ادھار۔
یعنی اگلے سال قرض اور سود ستر اور اس سے اگلے سال اسی فیصد۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم سے پہلے کسی قوم کو ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا ہوگا،لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہماری قوم کی طرح کسی قوم نے پانی سر سے گذرنے کے بعد بھی بچنے کے لئے ہاتھ پیر نہ مارے ہوں۔
پاکستان کا تقریبا ہر شخص اس وقت ناخوش ہے اور اس کی وجہ ہماری رولنگ ایلیٹ کی مکمل ناکامی ہے اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی یہ ناکامی ان کی ذاتی زندگیوں میں کامیابیوں سے لدی ہوئی ہے۔
پاکستان کے معاملات کی اصلاح اس دن تک شروع نہیں ہوگی جب تک کہ وہ ایک مربوط سیاسی نظام طے نہیں کرلیتے جو کہ عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو اور بظاہر فریقین اس آغاز کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔