کالم

بلوچستان میں شہریوں کا قتل اور ریاست کا کردار

اگست 29, 2024 2 min

بلوچستان میں شہریوں کا قتل اور ریاست کا کردار

Reading Time: 2 minutes

ریاست کا کام بنیادی طور پر عوام کے لیے ہے اور جمہوریت میں ریاست کا بنیادی کردار اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا، انصاف کو یقینی بنانا، فلاح و بہبود کو فروغ دینا، حقوق کا تحفظ کرنا اور معاشی اور سماجی ترقی کے لیے حالات پیدا کرنا ہے۔
سرکاری ادارے عوامی مفادات کے تحفظ، امن و امان کو برقرار رکھنے اور آبادی کے لیے اعلیٰ معیار زندگی کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

شہری اکثر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور خودکش بمبار بننے پر مجبور اُس وقت ہوتے ہیں جب وہ گہری ناانصافیوں، اپنی جانوں کو لاحق خطرات، یا بنیادی حقوق کی پامالی کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ محرکات گہرے ذاتی یا اجتماعی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ عام طور پر اس احساس سے جنم لیتے ہیں کہ ریاست اب اپنے لوگوں کے مفادات کا تحفظ یا خدمت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

شدید معاشی عدم مساوات، خاص طور پر جب بدعنوانی یا حکومتی غفلت کے ساتھ مل کر، بغاوتوں کو جنم دے سکتی ہے۔ جب شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ ریاست کی پالیسیوں سے غریبوں یا پسماندہ افراد کی قیمت پر صرف اشرافیہ کو فائدہ ہوتا ہے، تو وہ مسلح بغاوت کو نظام کی ناانصافی کو دور کرنے کے راستے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیاں، جیسے کہ تشدد، ماورائے عدالت قتل، یا نسلی ظلم، لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جب پرامن احتجاج کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو لوگ اکثر بنیاد پرست ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مسلح جدوجہد واحد موثر ردعمل ہے اور یہی راستہ بلوچ اختیار کر چکے ہیں جب مسلح جدوجہد بڑھ جاتی ہے تو پھر اُسے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت نہیں روک پاتی۔

بلوچستان کے لوگ اس قدر ریاستی جبر سے تنگ آچکے ہیں جس بات کا اندازہ ریاستی اداروں پر خود کش حملے کرنے والی شاری بلوچ، سمیعہ بلوچ، اور اب ماہل بلوچ سے لگایا جا سکتا ہے، ایک عورت کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنا گھر اور بچوں کو سنبھالے لیکن جب عورت ظلم اور تشدد سے تنگ آجاتی ہے تو پھر اُس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ خود کو آزاد کردے یا پھر ظلم کے خلاف جنگ کرے۔

بلوچ احتجاج کرتے ہیں تو اُن پر سیدھی گولیاں برسائی جاتی ہیں، بلوچ حقوق کی بات کرتے ہیں تو اُنہیں دیوار سے لگایا جاتا ہے، بلوچ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو اُن کو بھی جبری طور پر گمشدہ کر دیا جاتا ہے تو پھر بلوچ کون سا راستہ اختیار کریں، یہ سوال اب عام بلوچ نوجوان پوچھنے لگا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے