نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کو عہدہ سنبھالنے سے قبل سزا ہوگی: جج
Reading Time: 3 minutesامریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہش منی کیس میں حلف اٹھانے سے قبل سزا سنائے جانے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ان کے باقاعدہ صدارتی آفس سنبھالنے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو کیس کی سماعت کرنے والے جج نے اشارہ دیا کہ ان کو 10 جنوری کو سزا سنائی جا سکتی ہے، تاہم ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ جیل نہیں بھیجا جائے گا۔
اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو ٹرمپ سنگین جرم میں سزا پانے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے مینہیٹن کے جج جووان ایم مرچن نے تحریری فیصلے میں اشارہ دیا کہ وہ سابق اور مستقبل کے صدر کو وہ سزا سنا دیں گے جسے ’ان کنڈیشنل ڈسچارج‘ کہتے ہیں۔
اس میں جرم ثابت ہو جاتا ہے تاہم جیل جانے کے معاملے میں رعایت دی جاتی ہے اور جرمانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
اگلی سماعت جس میں ٹرمپ کو سزا سنائے کا بہت امکان ہے، کے موقع پر ٹرمپ ذاتی طور پر یا ورچوئلی پیش ہو سکتے ہیں۔
عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی استثنیٰ اور دوسری بار صدر منتخب ہونے کی بنیادوں پر دی جانے والے درخواست کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے درخواست میں پچھلے فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست کی تھی۔
جووان مرچن نے لکھا کہ ’اس معاملے کو حتمی شکل دینے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔‘
امریکہ کی سپریم کورٹ نے جولائی میں صدارتی استثنیٰ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کوئی قانون سے بالا نہیں۔‘
مرچن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’عدالت کو اس نکتے پر قائل نہیں کیا جا سکا کہ کارروائی کے اس مرحلے میں پہلا فیکٹر دوسروں سے زیادہ اہم ہے۔‘
ٹرمپ کے ادارے ٹرمپ کمیونیکیشنز کے ڈائریکٹر سٹیون چیونگ نے سماعت کے بعد ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا ہے جس میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ کیس غیرقانونی ہے اور اس کو خارج کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ ’کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے اور ٹرمپ تب تک ان جھوٹے الزامات کے خلاف لڑیں گے جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتے۔‘
تاہم انہوں نے مزید کوئی وضاحت نہیں کی کہ ٹرمپ قانونی طور پر مزید کون سی کارروائی کر سکتے ہیں۔
خیال رہے الیکشن جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کو درخواست دی تھی کہ وہ صدر منتخب ہو گئے ہیں اس لیے کیس خارج کیا جائے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ فوجداری مقدمے میں انہیں قصوروار نہ ٹھہرایا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016 کے صدارتی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں ایک پورن سٹار کو خاموش رہنے کے عوض رقم کی ادائیگی پر جرم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔
نومنتخب صدر کو پورن سٹار سٹورمی ڈینیئل کو رقم دینے سمیت مالی لین دین سے متعلق 34 الزامات کا سامنا ہے جسے ’ہش منی کیس‘ کہا جاتا ہے۔
اگرچہ سزا صدارت کے فرائض انجام دینے کی ان کی اہلیت میں رُکاوٹ بن سکتی تھی تاہم، پانچ نومبر کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے جیل یا پروبیشن کی صورت میں سزا کے امکان کو سیاسی طور پر اور بھی زیادہ پیچیدہ اور ناقابلِ عمل بنا دیا ہے۔
2016 کے انتخابات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے پورن سٹار سٹورمی ڈینیئل کو خاموش رہنے کے عوض ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔
یہ رقم ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن نے سٹورمی ڈینیئل کو ادا کی تھی۔ بعد میں ٹرمپ نے مائیکل کوہن کو یہ پیسے ادا کیے اور کاروباری دستاویزات میں جعل سازی کرتے ہوئے انہیں وکیل کی فیس کے طور پر ظاہر کیا۔
پورن سٹار سٹورمی ڈینیئل نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جنسی تعلقات کا دعویٰ کیا تھا۔ سٹورمی ڈینیئل کا یہ دعویٰ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا جو اس وقت ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں صدارتی مہم چلا رہے تھے۔
سٹورمی ڈینیئل کو ان الزامات پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھاری رقم ادا کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر پورن سٹار سٹارمی ڈینیئل کو خاموش رہنے کے عوض ادا کی گئی رقم کو چھپانے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں جعل سازی سے متعلق 34 الزامات عائد کیے گئے تھے۔
نومنتخب امریکی صدر کو 26 نومبر کو سزا سنائی جانی تھی تاہم، اعدالت نے سزا سنانے کی تاریخ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی تھی۔