انڈیا آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کے پانچ نمایاں نتائج، کس کا کیا مستقبل؟
Reading Time: 3 minutesآسٹریلیا نے سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں اتوار کو انڈیا کو پانچویں ٹیسٹ میں چھ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز 3-1 سے جیت لی اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں جگہ بنا لی۔
’اے ایف پی سپورٹ‘ نے ایک سنسنی خیز سیریز کے دوران پانچ اہم چیزیں دیکھیں جن پر بات ہوئی۔
ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے والے شائقین زندہ ہیں
دونوں ٹیموں کے درمیان پہلی بار پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز دیکھنے کے لیے شائقین کی ایک بڑی تعداد سٹینڈ تک آئی۔
اور ہر میچ کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی رہی اور جوش و خروش میں اضافہ ہوتا گیا۔
اچھے موسم، چھٹیوں کے دورانیے اور دلچسپ مقابلوں کے باعث شائقین نے گراؤنڈ میں حاضری کے ریکارڈ کو توڑ دیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ سرخ گیند کا کھیل بے حد مقبول ہے۔
سب سے زیادہ شائقین میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں چوتھے ٹیسٹ میں آئے جہاں حیرت انگیز طور پر 373,691 تماشائیوں نے اپنی حاضری لگائی۔
اس نے انگلینڈ کے خلاف 1936-37 کی ایشز سیریز کے دوران اسی گراؤنڈ پر 350,534 کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا، جب ڈونلڈ بریڈمین نے اس کھیل پر راج کیا تھا اور ٹیسٹ میچز چھ دنوں تک کھیلے جاتے تھے۔
شاندار بمراہ
سیریز کے دوران شاندار تیز گیند باز جسپریت بمرا نے نہ صرف انڈیا کے سب سے طاقتور گیند باز کے طور پر اپنی ساکھ کو تقویت بخشی بلکہ بتا دیا کہ وہ دنیا کے بہترین بولرز میں سے ایک ہیں۔
بمرا نے ٹیم کو آگے لے جانے میں مدد کرنے کے ساتھ بارڈر- گواسکر ٹرافی گھر لے کر جانے کی بھی بھرپور کوشش کی، آسٹریلیا میں ایک سیریز میں کسی انڈین بولر کی طرف سے سب سے زیادہ 13.06 کی اوسط سے 32 وکٹیں حاصل کیں۔
بمرا نے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں اکیلے 53.2 اوورز پھینکے – اس سے زیادہ انہوں نے اپنے کیریئر کے کسی بھی میچ میں گیند بازی نہیں کی – اور سڈنی میں اس مشقت کا اثر اس وقت ہوا جب کمر کے مسئلے نے ان کے سپیل کو پہلی اننگز تک محدود کر دیا۔
روہت شرما کی جگہ پرتھ اور سڈنی میں انہیں کپتانی سونپنے کے فیصلے سے ان کے اہم کردار کو مزید اجاگر کیا گیا۔
جوانی کا جوش
آسٹریلیا کے بلے باز سیم کونسٹاس اور انڈیا کے آل راؤنڈر نتیش کمار ریڈی کے اس سیریز میں ابھرنے سے یہ ظاہر ہوا کہ دونوں ٹیموں کے پاس نوجوان ٹیلنٹ کا ایک کنویئر بیلٹ بدستور موجود ہے۔
کونسٹاس، 19، اور ریڈی، 21، دونوں نے اپنے کیریئر آغاز کیا اور اس کے دھماکہ خیز اثرات مرتب ہوئے۔
ایک نڈر کونسٹاس نے برسبین میں اپنی پہلی ٹیسٹ اننگز میں 60 رن کی طوفانی اننگز کھیلی۔
انہوں نے جسپرت بمرا کا احترام نہ کیا اور ’اُلٹے سیدھے شاٹس‘ کھیل کر خود کو آسٹریلیا کے لیے ایک ممکنہ طویل مدتی اوپنر کے طور پر کھڑا کیا۔
ریڈی بھی اتنا ہی متاثر کن تھا، جس نے چوتھے ٹیسٹ میں پہلی سنچری بناتے ہوئے فرنٹ لائن بیٹنگ کو قابل قدر تعاون فراہم کیا۔
سڑک کا اختتام
دونوں ٹیمیں ایک عبوری دور سے گزر رہی ہیں اور یہ سیریز ان کے عمر رسیدہ اور کم کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کے لیے آخری ہو سکتی تھی۔
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ جن کی عمر 38 برس ہو گئی ہے، انہوں نے سڈنی میں دوسری اننگز میں 41 رنز بنائے لیکن درحقیقت نہیں چل پائے۔ اس وقت آسٹریلیا کے پاس خواجہ کا کوئی واضح جانشین نہیں ہے۔
انڈین کپتان روہت شرما بھی اسی طرح دباؤ میں ہیں، انہیں سڈنی میں آخری ٹیسٹ سے ڈراپ ہونا پڑا ہے جو اُن کی بدترین فارم کو ظاہر کرتا ہے۔
37 سالہ روہت نے اصرار کیا کہ اس نے ٹیم کی بھلائی کے لیے ’آرام‘ کیا اور واپس آ جائیں گے، لیکن ان کے دن گنے جا سکتے ہیں۔
سپر سٹار وراٹ کوہلی بھی اب 36 برس کے ہیں، اور وہ بھی ایک ناقابل یقین کیریئر کے اختتام پر کھڑے ہیں۔
انہوں نے تقریباً یقینی طور پر آسٹریلیا کا اپنا آخری دورہ کیا ہے اور پرتھ میں پہلے ٹیسٹ میں ناقابل شکست 100 رنز بنانے کے بعد وہ ایک اور بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے۔
سٹیو سمتھ عظیم کھلاڑیوں میں شامل
لاجواب سٹیو اسمتھ اگلے ماہ سری لنکا کے دورے پر 10,000 ٹیسٹ رنز بنا کر عظیم کھلاڑیوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
وہ اذیت ناک طور پر سڈنی میں 9,999 پر رہ گئے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُن کے پاس ابھی آسٹریلیا کی کرکٹ کو دینے کے لیے کچھ ہے۔
جب کہ ان کی نسل کے دیگر کھلاڑی جدوجہد کر رہے تھے، 35 سالہ نوجوان نے دو سنچریوں کے ساتھ ایک کامیاب سیریز کا لطف اٹھایا۔
سمتھ نے ریٹائرمنٹ کے کوئی آثار نہیں دکھائے اور امکان ہے کہ انہیں سری لنکا کے دورے کے لیے کپتان نامزد کیا جائے گا، اگر پیٹ کمنز اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران ٹیم سے چھٹی لیتے ہیں۔