ملک ریاض کے پاس اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں، پاکستانی وزیر دفاع
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ جہاں جمہوریت ہو وہاں صحافت آزاد ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں نہیں ہے کیونکہ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا نام نہیں لیا جا سکتا۔
جمعے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں انہوں نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بارے میں کہا کہ ’حکومت کی سطح پر ان کو واپس لانے کے لیے بیرون ملک رابطہ کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی متوازی ریاست چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس معاملے کا پیچھا کیا جائے گا۔
’صحافی نہیں مگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اپنے گریبان میں ضرور جھانکیں۔ دوہرا معیار ختم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ سیاست میں دوغلا پن، صحافت میں دوغلا پن، عدلیہ میں بھی دوغلا پن، یہ سلسلہ نہیں چل سکتا، ہمیں ایک دیانتدارانہ اپروچ اپنانا چاہیے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’بندے بھی کم ہیں اور کیمرے بھی کم ہیں۔ معلوم نہیں میری یہ پریس کانفرنس نشر بھی ہوگی یا نہیں۔ ملک ریاض شجرِممنوعہ ہے اس پر بات کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے ماضی میں میڈیا کی ملک ریاض کے حوالے سے جعل سازی کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو یاد ہوگا کہ وہ جو دو اینکرز بیٹھے ہوئے ملک ریاض کا انٹرویو کر رہے تھے۔‘
وزیر دفاع نے کہا کہ جس ملک میں چینلوں کے مالک، سیاست دان اور صحافی خرید لیے جائیں وہاں کیا سچی جمہوریت کی اُمید رکھیں۔ یہاں وہ معاملہ ہے کہ نوٹ دکھاؤ میرا موڈ بنے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پہلی بار ملک ریاض کے خلاف سنہ 1997 میں آواز اُٹھائی کہ بحریہ ٹاؤن ملکی نیوی کا نام کیوں استعمال کر رہا ہے۔
’بحریہ کے سربراہ صبیح بخاری نے میرے پاس ایڈمرل بھجوائے کہ اس طرح نہ کریں۔ نیول چیف نے میرے سوال کا جواب نہ دیا۔‘
ملک ریاض کا یہ سلسلہ یہ سلسلہ 30 برس سے چل رہا ہے۔
القادر یونیورسٹی اور ملین پاؤنڈ کیس میں ملک ریاض نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ بیواؤں، یتیموں اور غریب لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے ہیں۔
دولت کے زور پر، اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ یہ زمینیں شفاف طریقے سے نہیں لی گئیں۔ قومی سطح پر اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
جرم کی پشت پناہی جرم کی اعانت کے زمرے میں آتا ہو، خواہ صحافی کریں، سیاست دان کریں یا عدلیہ کرے۔
جنرل مشرف کے دور میں ایسے لوگوں کو پیسے لگائے جو نہیں لگانے چاہییں تھے، جن لوگوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی بنیاد چلی۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔ کوئی بتا دے کہ ریاست کا پیسہ ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں کیسے چلا گیا۔
حکومت کو اور ملک کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ ریاست سے بھی لوگ طاقتور ہو جائیں تو پھر ان کا قلع قمع ہوتا ہے۔
اب کوئی حالات نہیں بدلیں گے اور نہ ہی اب ان کو ریلیف ملے گی۔ نہ عدلیہ اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت اس کو افورڈ کر سکتی ہے۔ ’ملک ریاض کو واپس لا کر مقدمات چلائے جائیں گے، یہ اعلٰی سطح پر احتساب کا عمل ہے جو شروع ہو چکا ہے۔‘