اہم خبریں

سوئٹزر لینڈ کے ڈیووس اقتصادی فورم میں ’سیکس ورکرز‘ اور ’موسمیاتی تبدیلی‘ کا ہاتھی

جنوری 26, 2025 3 min

سوئٹزر لینڈ کے ڈیووس اقتصادی فورم میں ’سیکس ورکرز‘ اور ’موسمیاتی تبدیلی‘ کا ہاتھی

Reading Time: 3 minutes

ڈیووس سوئٹزرلینڈ کا مشہور شہر ہے جہاں عالمی اقتصادی فورم منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت کے علاوہ بڑے بزنس ٹائیکون شرکت کرتے ہیں۔

ایک اعلیٰ درجے کے اسکارٹ یا سیکس ورکر نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF) میں شرکت کرنے والے عالمی اشرافیہ کی نجی زندگیوں اور رویوں کی ایک جھلک پیش کی ہے، جس سے دنیا کے مستقبل کے بارے میں ان کے تاریک نظریے کو ظاہر کیا گیا ہے۔

سالوم بالتھس، ایک 40 سالہ اسکارٹ اور برلن سے تعلق رکھنے والی مصنفہ ہیں، جنہوں نے دولت مند اور بااثر رہنماؤں کے سالانہ اجتماع کے دوران گاہکوں سے ملنے کے لیے ڈیووس کا سفر کیا۔

انہوں نے اخبار میل آن لائن کو بتایا کہ بہت سے امیروں کا خیال ہے کہ موسمیاتی تباہی ناگزیر ہے اور بہت دیر ہونے سے پہلے اپنی بے پناہ دولت کا استعمال کرتے ہیں۔

سالوم کے مطابق کانفنرس کے شرکا جانتے ہیں ’موسمیاتی تبدیلی کمرے میں موجود ہاتھی ہے۔ اور ان کے مطابق ہر کوئی جانتا ہے کہ اسے مزید روکا نہیں جا سکتا۔‘

سلوم نے وضاحت کی کہ یہ اشرافیہ عام طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ’ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ صرف غریبوں پر اثر انداز ہوتا ہے، ‘غیر سفید نسل’، جبکہ دوسرے کو خدشہ ہے کہ یہ معاملہ مزید خراب ہو سکتا ہے لیکن اُن کو یقین ہے کہ اسے روکنے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ صرف اپنے آپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے گزشتہ برسوں میں اس فورم کے موقع پر ڈیووس میں ہونے والے اُس احتجاج کو کچھ زیادہ کوریج نہ دی جو وہاں اس موقع پر ہر سال آنے والی طوائفوں یا سیکس ورکرز نے کیا تاہم رواں سال ایک جرمن خاتون سیکس ورکر جنہوں نے کتاب بھی لکھی ہے اس حوالے سے بات کی۔

عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ہزاروں طوائفیں دنیا بھر سے ڈیووس کا رخ اس لیے کرتی ہیں کہ اشرافیہ سے معاوضہ اچھا ملتا ہے اور بعض رپورٹس کے مطابق ایک رات کے کم از کم اڑھائی ہزار ڈالر تک وصول کرتی ہیں۔

ڈیووس کو اکنامک فورم کے دنوں میں رونق بخشنے والوں میں صرف خواتین سیکس ورکرز ہی نہیں ہوتیں بلکہ مرد اسکارٹس بھی ہیں جو اپنے جسم اشرافیہ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

ویسے تو سیکس ورک کو دنیا کا سب سے قدیم پیشہ سمجھا جاتا ہے مگر سوئٹزر لینڈ میں اس کو سب سے اچھے معاوضے والا کام قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں دنیا بھر کے ارب پتی جمع ہوتے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں جسم فروشی قانونی ہے، اور عالمی اقتصادی فورم جیسے ایونٹس میں شرکت کرنے والے اعلیٰ درجے کے ایسکارٹس اپنے آپ کو سمجھداری سے وہاں جنسی طور پر پیش کرتے ہیں، سمارٹ لباس اور پیشہ ورانہ برتاؤ کے ساتھ کاروبار پر مبنی ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔

میل آن لائن اخبار کو ایک اور اسکارٹ ٹفنی نے بتایا کہ وہ بہت اچھے کپڑے پہنتی ہیں۔ ’جامنی رنگ کے سوٹ پر سیاہ کوٹ سے ایسا نظر آتا ہے جیسے میں واقعی اس کانفرنس کا حصہ ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہاں اہم لوگوں سے گھلنے ملنے میں آسانی ہوتی ہے۔

پچھلے سال خبر آئی تھی کہ 3000 جسم فروشوں کو عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ڈیووس میں جانے دیا گیا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں کو صرف سیکس ورک کے لیے لانا ایک طرح سے جنسی سمگلنگ سمجھی جا سکتی ہے۔

صرف 13 سال قبل حقوق نسواں کے ایک گروپ کو ڈیووس کے باہر فلمایا گیا تھا جس میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

اس احتجاج کے دوران انسانی حقوق کی کارکنوں نے جسم فروشی پر مجبور کارکنوں کے کم معاوضے کے خلاف کپڑے اُتار کر احتجاج کیا تھا جن کو پولیس نے زبردستی آگے جانے سے روک دیا تھا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے