سربیا کا تاریخی شہر بلغراد جو 40 بار اجاڑا گیا
Reading Time: 6 minutesصادق کاکڑ
نیش میں ورک شاپ کے اختتام پر میرا پلان یہ تھا کہ سربیا کا دارالحکومت بلغراد بھی دیکھ لوں گا، اسی مقصد کے لئے میں نے واپسی کی فلائٹ بلغراد سے بک کروائی تھی جو کہ ایک ہی روٹ سے ریٹرن فلائٹ بک کروانے سے تھوڑی مہنگی پڑتی ہے لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دومختلف شہر دیکھ لیتے ہیں۔
سات اپریل کو میں نے دوستوں کے ساتھ صبح ساڑھے 6 بجے نیش سے بس پکڑی اور تقریبا دس بجے ہم بلغراد پہنچ گیا۔ ہم 5 دوست اس بس سے آئے تھے۔ بلغراد پہنچے تو پولینڈ کی 2 لڑکیاں وہاں سے الگ ہوئیں، کیونکہ انہوں نے جلدی ائیرپورٹ پہنچنا تھا۔ ہم 3 دوستوں نے بس سٹیشن سے سٹی سینٹر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا روٹ دیکھا۔ سٹاپ تک واک کرتے کرتے ایک مقامی شخص سے روٹ کنفرم کیا تو اس نے بتایا کہ روٹ تو آپ کا درست ہے البتہ پبلک ٹرانسپورٹ مکمل فری ہے تو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ سربیا کے مقامی لوگ اگر جان لیں کہ آپ غیر ملکی ہیں تو مسکراہٹ اور خیرمقدم سے ہی استقبال کرتے ہیں۔ خوشی اور تجسس کے ملے جلے جذبات سے اس سے وجہ پوچھی کہ آج کوئی خاص دن ہے؟ اس نے بتایا کہ نہیں سیاسی وجوہات ہیں۔ تب مجھے یاد آیا کہ پچھلے کچھ ماہ سے پورے سربیا اور خاص کر دارالحکومت میں سٹوڈنٹ احتجاج پر ہیں۔ البتہ ان کے احتجاجی مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد ہونے کے باوجود دونوں سائڈوں سے وہ چیز نظر نہیں آتی جس کے بغیر ہمارے ہاں کے احتجاج نامکمل تصور ہوتے ہیں۔
ہم سٹی سینٹر پہنچے، بس سے اتر کر ہم نے اپنے بیگ رکھنے کے لئے کوئی جگہ ڈھونڈی تو پتہ چلا کہ کافی ساری دوکانیں تو 11 بجے ہی کھلتی ہیں۔ تھوڑی دور ایک بار کھلا ملا جہاں ہم اپنے بیگ رکھوا سکتے تھے۔ 15 منٹ واک کر کے بار میں دس یورو فی بندہ اپنے بیگ رکھوائے اور پرچی لے کر وہاں سے شہر کے سٹی سینٹر واپس آ گئے۔
بلغراد دنیا کے ان چند شہروں میں سے ہے جو سب سے زیادہ بار تباہ ہوئے اور دوبارہ بسائے گئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق بلغراد کو 40 سے زائد مرتبہ مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیا گیا۔ یونانی، رومی، عثمانی، آسٹریا، اور دیگر اقوام کی افواج نے اس پر قبضہ کیا۔ اس کے باوجود، یہ شہر ہر بار نئی زندگی کے ساتھ ابھرا، جو اس کی تہذیبی طاقت اور مقامی لوگوں کے حوصلے کی علامت ہے۔
بلغراد مشرقی یورپ کی تاریخ، ثقافت اور روحانی تنوع کا آئینہ دار ہے۔ بلغراد کو طلبہ اور نوجوان سیاحوں کے لئے یورپ کے کم خرچ اور بجٹ فرینڈلی دارالحکومتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ رہائش، کھانے اور سفر کے اخراجات کئی یورپی شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ بلغراد میں لوگ گھنٹوں کافی شاپس میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں چائے کے ہوٹلوں پر محفلیں جمتی ہیں۔ یہاں کا کافی کلچر بہت مضبوط ہے، اور ہر گلی میں ایک نئی خوشبو اور نیا ذائقہ ملتا ہے۔ بلغراد مشرقی یورپ کی روایات اور جدید یورپ کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اس شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہر عمارت، ہر پتھر، اور ہر چہرہ ایک الگ کہانی سناتا ہے۔
البتہ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بلغراد مجھے نیش سے کم خوبصورت لگا، چند ایک ہی ایسی جگہیں ہیں جو میرے جیسے بندے کے لئے دلچسپی کا باعث تھیں، ورنہ اس شہر میں ہٹ کر کچھ خاص مجھے صرف آرتھوڈوکس چرچ ہی ملا۔ یہاں پر آرتھوڈوکس عیسائیوں کے دو مشہور مذہبی چرچ ہیں۔ پہلا چرچ Saint Sava Cathedral کہلاتا ہے جبکہ دوسرا Saint Mark’s Church کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاریخی اور مذہبی لحاظ سے Saint Sava Cathedral زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بلغراد کا سب سے نمایاں اور روحانی مقام Saint Sava Cathedral ہی ہے، جو نہ صرف سربیا بلکہ پورے آرتھوڈوکس عیسائی دنیا کے عظیم ترین گرجا گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس چرچ کا نام سربیا کے سب سے معزز مذہبی رہنما Saint Sava کے نام پر رکھا گیا ہے، جو 13ویں صدی میں سربیا کے پہلے آرتھوڈوکس آرچ بشپ تھے اور سربیا کی مذہبی و تعلیمی بنیاد رکھنے والے مانے جاتے ہیں، انہوں نے ہی آرتھوڈوکس عیسائیت کو سربیا میں متعارف کروایا تھا۔
سٹی سینٹر کے بعد ہم بلغراد کے پرانے محلے کی طرف چلے گئے جو "سکادارلیا” کہلاتا ہے۔ یہ اونچی نیچی گلیاں تھیں، نیچے فرش صدیوں پرانے طرز کا پتھروں سے بنا ہوا ہے اور سڑک کے دونوں طرف ریسٹورنٹ بنے ہوئے تھے، جگہ جگہ مجسمے بھی نظر آئے۔ وہاں سے ہم نے بلغراد کا قلعہ دیکھنے جانا تھا لیکن گوگل پہ پتہ چلا کہ قلعہ آج بند ہے تو صرف قلعہ کا گیٹ دیکھنے کے لیے جانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ ہمارے پاس وقت کم تھا اور ہم نے 3 بجے ائیرپورٹ کے لئے بھی نکلنا تھا۔
وہاں سے ہم Saint Mark’s Church کو دیکھنے روانہ ہوئے اور راستے میں ایک "یادگاریں” بیچنے والی دوکان میں داخل ہوئے کہ کوئی یادگاری چیز خریدی جائے، تو باہر برف باری شروع ہوئی۔ چند منٹ قبل جو شاندار دھوپ تھی اب وہ غائب ہوئی اور ہلکی ہلکی برف باری نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ لیکن جیسے ہی ہم چرچ کے قریب پہنچے، موسم نے واپس رنگ بدلنا شروع کیا اور واپس دھوپ نکل آئی۔
وہاں سے ہم واک کرتے کرتے Saint Mark’s Church پہنچے۔ سینٹ مارک چرچ بلغراد کے Tasmajdan پارک کے ساتھ واقع ہے، یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں مقامی لوگ شام گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہ چرچ 1931 میں تعمیر ہونا شروع ہوا اور 1940 میں مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر سربیا کے قرونِ وسطیٰ کے طرزِ تعمیر پر ہوئی، خاص طور پر 14ویں صدی کے Gracanica Monastery سے متاثر ہو کر بنائی گئی عمارت ہے۔ یہ چرچ نہ صرف روحانی بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
چرچ کی بیرونی دیواریں سرخ اور بھورے رنگ کے سنگِ تعمیر سے بنی ہوئی ہیں، جو اسے دوسرے گرجا گھروں سے منفرد بناتی ہیں۔ دو بلند مینار اور مرکزی گنبد اس کی شان کو مزید بڑھاتے ہیں۔ اندرونی حصہ خاموش اور پُر سکون ہے، جہاں شبیہیں اور دیواروں پر بنی مسیحی مصوری زائرین کو وقت کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ چرچ کے اندر تمام دیواروں کے ساتھ ساتھ مراقبہ کرنے کے لئے لاتعداد کرسیاں بھی رکھی گئی ہیں، جہاں آنے والے زائرین مراقبہ بھی کر سکتے ہیں۔
چرچ میں داخل ہوتے ہی بالکل وسط میں کچھ شبیہیں رکھی گئی ہیں اور آرتھوڈوکس عیسائی پہلے لائن میں لگ کر ان شبیہوں کو چومتے ہیں اور پھر چرچ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
چرچ سے باہر نکلنے پر کچھ تصویریں لیں، وہاں سے میری شدید خواہش تھی کہ ہم سابقہ یوگوسلاویہ کا میوزیم دیکھنے چلے جائیں کہ شاید کچھ تاریخ دیکھنے کو ملے لیکن ہمارے پاس وقت کم تھا۔ لہذا میوزیم دیکھنے کی خواہش ادھوری ہی رہ گئی۔ ہم نے لنچ کا فیصلہ کیا اور ایک ترکی ریسٹورنٹ ڈھونڈا جو 20 منٹ کی واک پر تھا تو لنچ کرنے اس کی طرف چل پڑے۔ ابھی ہم آدھے راستے بھی نہیں پہنچے تھے کہ ایک بار پھر برفباری شروع ہوئی اور اب کی بار سردی کی اتنی شدید لہر ساتھ آئی کہ میرے ہاتھ جمنے لگے تھے، اپریل کے مہینے میں جنوری کی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ اسی ٹھنڈ میں چلتے چلتے جب ریسٹورنٹ پہنچے تو وہ بند تھا۔ ساتھ ہی 1 پیزا شاپ کھلی تھی، ٹھنڈ سے برا حال فورا اس پیزا شاپ میں گھس گئے کہ کوئی اور جگہ ڈھونڈتے ہیں، وہاں جا کر وائی فائی مانگا تو بندے نے نہایت خوش اخلاقی سے وائی فائی کا پاس ورڈ دیا۔ ہم نے وہی پر لنچ کرنے کا فیصلہ کیا اور پیزا آرڈر کر دیا۔ البتہ پیزا بالکل بھی مزیدار نہیں تھا۔
پیزا کھا کر باہر نکلے تو موسم واپس نارمل ہو چکا تھا۔ ہم قریب ہی اپنے بیگ لینے چلے گئے۔ بیگ اٹھا کر پبلک ٹرانسپورٹ سے 5۔6 سٹاپ گئے، جہاں سے ہم نے ائیرپورٹ کے لئے شٹل سروس لینی تھی۔ دوڑ دوڑ کر کھڑی شٹل پر پہنچے اور بیگ رکھنے کے بعد جیسے ہی ٹکٹ لینے کے لئے جیب سے بینک کارڈ نکالا تو ڈرائیور نے کہا کہ صرف کیش چاہیے۔ ہم 3 لوگ تھے اور خوش قسمتی سے ہمارے پاس آخری 1200 سربین دینار کیش کی صورت موجود تھے۔ وہ سارے ڈرائیور کو دئیے اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔
ائیرپورٹ سے اگلی منزل اپنا گھر بیلجیئم ہی تھا۔