کالم

ہمارے احتجاج کی جغرافیائی منافقت!

اپریل 17, 2025 2 min

ہمارے احتجاج کی جغرافیائی منافقت!

Reading Time: 2 minutes

یہ ایک عجیب مگر افسوسناک حقیقت ہے کہ جب افغانستان میں جنگ کا بازار گرم تھا، جب ڈرون حملوں میں معصوم شہری مارے جا رہے تھے، جب گاؤں کے گاؤں ملبے میں بدل گئے تھے — تب ہماری گلیوں، سڑکوں، اور شہروں میں خاموشی چھائی رہی۔ نہ کوئی جلوس نکلا، نہ بینرز لہرائے گئے، نہ سوشل میڈیا پر طوفان آیا۔ جیسے کہ ان مظلوموں کی چیخیں سرحد پار کرنے کے قابل نہ تھیں، یا شاید ہمارے ضمیر کے دروازے صرف مخصوص آوازوں پر کھلتے ہیں۔

لیکن آج ہزاروں کلومیٹر دور فلسطین میں جب ظلم ہوتا ہے (اور بلاشبہ ہوتا ہے)، تو وہی لوگ جو افغانستان کے دکھ پر لب سی لیے بیٹھے تھے، اچانک سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ فلسطینی پرچم تھامے، نعرے لگاتے، یکجہتی کے مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پروفائل پکچرز بدل جاتی ہیں، اور ہم انسانیت کے علمبردار بننے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

یہاں سوال فلسطینیوں کی حمایت یا ان سے محبت کا نہیں، بلکہ بات اصول کی ہے۔ اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا آپ کا اصول ہے، تو یہ اصول سرحدوں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ کیا افغان بچے انسان نہیں تھے؟ کیا ان کی مائیں کم روئی تھیں؟ یا صرف اس لیے کہ وہ ہمارے “سیاستی بیانیے” کا حصہ نہ بن سکے، ہم نے ان کے درد کو نظرانداز کر دیا؟

اگر ہم واقعی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم انصاف کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، یا صرف ان مواقع پر احتجاج کرتے ہیں جہاں ہجوم ہو، جہاں فیشن ہو، جہاں “وائرل” ہونے کا امکان ہو۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ ہم درد کی تشہیر تو کرتے ہیں، مگر صرف اس وقت جب وہ درد ہمارے جذباتی بیانیے سے مطابقت رکھتا ہو۔

افغانستان میں جب 20 برس تک آگ و خون کا کھیل جاری رہا، جب بچوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹتے رہے، جب مائیں اپنے لختِ جگر مٹی میں دفناتی رہیں—ہم نے نظریں چرا لیں۔ وہ ظلم ہمارے کیمروں کے فریم میں نہیں آیا، وہ لاشیں ہمارے سوشل میڈیا کے لائق نہیں تھیں۔ شاید اس لیے کہ ان پر کوئی “قومی ایجنڈا” نہیں چپکا ہوا تھا۔

لیکن جیسے ہی فلسطین میں ظلم ہوتا ہے—جو یقیناً ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ہمارے جذبات جاگ اٹھتے ہیں۔
سوال یہ ہے: کیا ہمیں مظلوم سے واقعی ہمدردی ہے، یا صرف ان مظلوموں سے جو ہمارے عقیدے، مسلک، یا سیاسی سوچ سے مطابقت رکھتے ہوں؟
کیا ہمارا احتجاج اصولی ہے یا انتخابی؟ اگر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ایمان کا تقاضا ہے، تو پھر ایمان جغرافیے کے ساتھ کیوں مشروط ہو جاتا ہے؟

افغانستان کے مظلوموں کی خاموشی میں دفن وہ سوالات آج بھی زندہ ہیں: ان کی قبروں پر کوئی بینر کیوں نہیں لہرایا گیا؟ ان کی ماؤں کے آنسو کیوں ہمیں رلا نہ سکے؟ان کے ملبے تلے دبے انسان ہمیں غیر متعلق کیوں لگے؟

یہ تضاد محض جذباتی نہیں، بلکہ فکری اور اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ ہم نے ظلم کے خلاف آواز کو نعرہ بنا دیا، اور نعرے کو بھی مخصوص شناختوں کے تابع کر دیا۔ ہمارا احتجاج اب حق اور باطل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ شہرت، مقبولیت، اور سیاسی ترجیح کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

یہ تحریر فلسطینیوں کی مخالفت میں نہیں، بلکہ ہمارے احتجاجی شعور کی منافقت پر ایک سوال ہے۔ کیونکہ اگر آپ کا دل واقعی مظلوموں کے لیے دھڑکتا ہے، تو وہ افغانستان میں ہو یا فلسطین میں، شام میں ہو یا سوڈان میں—آپ کی آنکھ نم ہونی چاہیے، آپ کی آواز بلند ہونی چاہیے۔ ورنہ یہ سب صرف دکھاوا ہے۔ احتجاج نہیں، نمائش ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے