پاکستان

بلدیاتی الیکشن کیوں ممکن نہیں

ستمبر 9, 2019 2 min

بلدیاتی الیکشن کیوں ممکن نہیں

Reading Time: 2 minutes

رپورٹ: عبدالجبارناصر

چھٹی مردم شماری 2017ء کو ڈھائی سال گزرنے کے باوجود حتمی نتائج جاری نہ ہونے کے باعث پاکستان میں تحقیق کے دروازے عملاً بند ہو گئے ہیں اور علاقائی و لسانی ”ڈیمو گرافی“ تبدیل ہونے کے باعث نئے اعداد دو شمار کے مطابق آئندہ سال ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مشکل ہو گیا۔

محکمہ شماریات کے ذرائع کے مطابق آبادی کے لسانی اعداد و شمار میں کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آبادی میں تبدیلی آئی ہے۔

محکمہ شماریات نے تقریباً پونے دو سال قبل اپنا کام مکمل کر کے دے دیاہے ۔ حتمی نتائج کے اجراء کے بغیر کسی شعبے میں تحقیق اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات ناممکن ہیں۔ چھٹی مردم شماری 2017ء مارچ میں ہوئی اور محکمہ شماریات نے اگست 2017 ء میں عبوری نتائج جاری کیے۔

اگست 2018ء تک مکمل نتائج جاری کرنے تھے مگر اب تک حکومت حتمی نتائج جاری نہیں کر سکی ہے ۔ محکمہ شماریات کے ذرائع کے اعدادو شمار کے مطابق ملک اور تمام صوبائی اکائیوں میں لسانی آبادی میں پانچویں مردم شماری 1998ء کے مقابلے میں کافی تبدیلی آئی ہے ۔ پنجاب میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد 75 فیصد سے کم ہوکر پونے 70 فیصد رہ گئی ہے اور سرائیکی بولنے والوں میں 3 فیصد سے زائد اضافہ ہواہے ۔ سندھ میں اُردو بولنے والوں کی تعداد 21 فیصد سے کم ہو کر 18 فیصد رہ گئی ہے ، جب کہ سندھی بولنے والوں کی تعداد پونے 60 فیصد سے بڑھ کر تقریباً پونے 62 فیصد ہو گئی ہے ۔ خیبر پختونخوا میں پشتو بولنے والوں کی تعداد 74 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 77فیصد ہوگئی ہے ۔ بلوچستان میں پشتو بولنے والوں کی تعداد پونے 30سے بڑھ کر 35 فیصد سے زائد ہو گئی ہے۔ فاٹا میں پشتو بولنے والوں کی تعداد میں آدھا فیصد کمی آئی ہے۔

اسلام آباد میں پنجابی بولنے والوں میں 19 فیصد سے زائد کمی اور پشتو بولنے والوں کی تعداد میں 9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ محکمہ شماریات کے مطابق اسی طرح کا ردوبدل دیگرنچلی انتظامی یونٹو ں میں بھی ہوا اور بعض انتظامی یونٹوں میں تو ‘‘لسانی ڈیمو گرافی ’’ مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں صوبوں اور وفاق نے قانون سازی نہیں کی تو آئندہ برس ملک میں کنٹونمنٹ ایریاز، وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن نے حکومتوں کو اپنی تشویش سے کئی ماہ قبل آگاہ کر دیا ہے۔ مادری زبان کے حوالے سے اعداد و شمار کا چارٹ مضمون میں شامل ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے